ہمارے ارگرد کی دنیا دو طرح کے علم پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ علم ہے جو مادی قوانین سے متعلق ہے۔ دوسرا وہ علم ہے جو نفس سے متعلق ہے۔ میرا اپنا وجود مادی ہے۔ میں مٹی سے بنا ہوں۔ میرے جسم میں ایک شخصیت پائی جاتی ہے۔ اس شخصیت کو جاننے کا علم نفسی علوم سے تعلق رکھتا ہے۔
انسان نے مادی قوانین پر غور کیا، تجربات کیے اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج امریکا میں موجود صدر تقریر کرتا ہے اور پوری دنیا اس کی بات حرف بہ حرف سنتی بھی ہے اور صدر کو دیکھتی بھی ہے۔
پرانے زمانے میں یہ ناممکن بات سمجھی جاتی تھی ۔اگر اس زمانے میں ایسا واقعہ ظہور پزیر ہوتا کہ ہم کسی انسان کو جو ہزاروں میل دور بیٹھا ہے، اس سے گفتگو کرسکیں تو جادو سے بھی بڑھ کر کوئی بات سمجھی جاتی۔
قرآن کریم نے اس طرح کے ایک واقعہ کو بیان کیا ہے۔
قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبۡلَ اَنۡ یَّرۡتَدَّ اِلَیۡکَ طَرۡفُکَ ؕ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسۡتَقِرًّا عِنۡدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّیۡ ۟ۖ لِیَبۡلُوَنِیۡۤ ءَاَشۡکُرُ اَمۡ اَکۡفُرُ ؕ وَ مَنۡ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیۡ غَنِیٌّ کَرِیۡمٌ﴿سورہ النمل آیت ۴۰﴾
جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں، جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا تو کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفر ان اور جو کوئی شکر کرتا ہے وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب یقینا بے نیاز اور صاحب کرم ہے۔
آج ٹیکنالوجی پورا انسان ہزاروں میل کے فاصلے سے اٹھا کر ہمارے سامنے لے آتی ہے۔
یہ ساری مادی علوم کی ترقی ہے۔ دوسری طرف نفسی علوم ہیں۔ ان کی ایک جھلک ہم اکثر مشاہدہ کرتے ہیں جن کو خواب کہتے ہیں۔ اتفاق سے انسان کی توجہ اس علم کی طرف بہت زیادہ نہیں رہی ہے۔ جو اس کے ماہر ہیں وہ بھی اس کو چھپا کر رکھتے ہیں۔
(جاری)
ابو جون رضا