رسول اکرم جب مدینے آئے تو گزر اوقات اور ازواج کے نان و نفقہ کے لیے گزارے لائق سامان بھی مہیا نہ تھا۔ ازواج بھوکے پیٹ رہتیں، کئی کئی دن فاقے ہوتے۔ اس مسئلے سے نکلنے کے دو حل تھے ۔ ایک یہ کہ آپ خود سے کام کریں، محنت مشقت کریں، زمین جائداد بنائیں اور ازاوج کی راحت کا سامان کریں۔ دوسرا یہ کہ انصار پر بوجھ بنیں، ان کی کمائی میں سے حصہ مانگیں۔
پہلا کام ابلاغ رسالت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے ممکن نہ تھا۔ دوسرا کام آپ جیسا شخص کبھی نہیں کرسکتا تھا۔ آپ نے مواخات بھی اپنے چچا زاد بھائی سے رکھی جو خود غریب اور مہاجر تھے۔
ازواج نے ایک دفعہ تنگ آکر مطالبہ کیا کہ ہمارا گزارا نہیں ہوتا تو آپ کو بہت ناگوار گزرا۔ آپ نے ان سے کنارہ کشی اختیار کی۔ ایک غیرت دار مرد کی حمیت پر حملہ تھا کہ آپ دوسروں کو بیوی بچوں سے اچھا سلوک کرنے اور خیال رکھنے کا حکم دیتے ہیں ، گھر کا حال یہ ہے کہ فاقے ہورہے ہیں۔
اس پر قرآن کی آیات آگئیں
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا﴿ سورہ احزاب ۲۸﴾
۲۸۔ اے نبی! اپنی ازواج سے کہدیجئے: اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کر شائستہ طریقے سے رخصت کر دوں۔
ازواج نے اس آیت کے بعد تنگی ترشی اور رسول اکرم کے ساتھ کو ترجیح دی۔
جب فتوحات ہوئیں تو وہ علاقے جن پر مسلمانوں نے اپنے گھوڑے نہیں دوڑائے، ان کے لیے جان جوکھوں میں نہیں ڈالی، بلکہ وہ خود سے رسول اکرم کے تصرف میں آگئے یعنی علاقے والے ممکنہ حملہ سے پہلے ہی آکر سرنگوں ہوگئے، ان علاقوں کو مکمل طور پر رسول اکرم کے ہاتھ میں دیا گیا، لیکن ان کے مصارف مقرر کردیے گئے کہ وہاں سے جو بھی آمدنی، خراج، جزیہ جو بھی آئے گا، وہ کس طرح سے خرچ ہوگا ۔
سورہ الحشر کی آیات پر غور کیجیے
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡہُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ خَیۡلٍ وَّ لَا رِکَابٍ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۶﴾
۶۔ اور ان کے جس مال (فئی) کو اللہ نے اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے (اس میں تمہارا کوئی حق نہیں) کیونکہ اس کے لیے نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ، لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ۘ﴿۷﴾
۷۔ اللہ نے ان بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے وہ اللہ اور رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے۔
لِلۡفُقَرَآءِ الۡمُہٰجِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اَمۡوَالِہِمۡ یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا وَّ یَنۡصُرُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ۚ﴿۸﴾
۸۔(یہ مال غنیمت) ان غریب مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے بے دخل کر دیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں نیز اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔
یُحِبُّوۡنَ مَنۡ ہَاجَرَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَا یَجِدُوۡنَ فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ حَاجَۃً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ؕ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۚ﴿۹﴾
۹۔ اور جو پہلے سے اس گھر (دارالہجرت یعنی مدینہ) میں مقیم اور ایمان پر قائم تھے، وہ اس سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آیا ہے اور جو کچھ ان (مہاجرین) کو دے دیا گیا اس سے وہ اپنے دلوں میں کوئی خلش نہیں پاتے اور وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود محتاج ہوں اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچا لیے گئے ہیں پس وہی کامیاب لوگ ہیں۔
ایک طرف مصارف بیان کیے گئے ، اس کی وجہ بھی بیان کی گئی کہ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں نہ رہے۔ پھر خاص طور پر ان مہاجرین کی طرف توجہ دلائی گئی کہ وہ لٹے پٹے آئے تھے۔ غیرت دار ہیں، ان کے حالات بہتر ہو جائیں ، اس لیے یہ مال ان پر خرچ ہوگا۔
ان انصار کی مدح کی گئی جو دیکھ رہے تھے کہ ان کو اس مال میں سے حصہ نہیں ملا، مگر ان کو کیونکہ پتا تھا کہ مہاجر کس طرح سے گزر بسر کرتے آئے ہیں، اس وجہ سے وہ دل میں تنگی محسوس نہیں کرتے بلکہ دعائیں کرتے ہیں، ان کو کامیاب ہونے کی بشارت دی گئی
اسلام ارتکاز دولت سے منع کرتا ہے ، بغیر ہاتھ ہلائے جواء ، سٹہ، سود کے زریعے کمائی ہوئی رقم کو حرام قرار دیتا ہے۔ اسلام تجارت کو مفید چیز کہتا ہے اور رسک لینے کا حکم دیتا ہے چاہے سلیپنگ پارٹنر کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو۔
کیسے ممکن یے کہ وہ لوگوں کو مال حلال محنت سے کمانے کی ترغیب دے لیکن اپنے ہی بھیجے ہوئے رسول کو جائیدادیں بنانے کی ترغیب دے۔ کیونکہ وہ رسول ہے اس لیے ہر جائیداد میں اس کا حصہ ہے، ہر کمائی میں بھی اس کا حصہ ہے تاکہ وہ آرام سے رہے، اس کی اولاد مزے کرے اور گدی نشینی کا سلسلہ چلتا رہے۔ یہ نعوذباللہ کوئی پیری مریدی کا سلسلہ نہیں تھا۔ اس لیے ایسا ہونا ممکن نہیں تھا
رسول کو بقدر ضرورت، آمدنی میں تصرف حاصل کرنے کی اجازت دی گئی، جو گزارے لائق ہو۔ لگژری زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ وجہ یہی تھی کہ رسول اگر جائیدادیں بنانے میں یا آمدنی کے حساب کتاب میں لگ جائے گا تو ابلاغ نہیں کرسکتا۔ اس کا اجر صرف اللہ کے پاس محفوظ ہے۔
اسی لیے یہ تصور کرنا کہ رسول نے جائیداد بنائی، پھر وہ وارثوں میں تقسیم ہوگی، ایک لغو تصور ہے۔
ابو جون رضا