انسانی ترقی اور ہمارا کردار

ہمارے پاس انسان کی معلوم تاریخ تقریبا پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ چار ارب سال کی اس گیلکسی میں پانچ ہزار سال بالکل ایسے ہیں جیسے ہم ابھی آئے ہیں۔

پچھلے دو سو سال میں ہم نے کس قدر ترقی کی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ
عربی بدوؤں کا دوسروں کی عورتوں کو اٹھا کر لانا، ان کو استعمال کرنا پھر ان کو بیچ دینا یا پھر کسی کو گفٹ کردینا پوری دنیا میں ختم کردیا گیا۔

پوری دنیا سے علامتی غلامی ختم کردی گئی ۔ یہاں تک مسلمان علماء بھی کہنے پر مجبور ہوئے کہ غلامی کے قوانین کوئی آفاقی نہیں تھے۔ یہ پرانے دور کے حساب سے تھے۔

ابھی تو بڑا سفر باقی ہے مگر انسان یہ سیارہ چھوڑ کر نیا جہاں بسانے کی بات کررہا ہے۔

آج دو ہزار ہے۔ کل تین ہزار آئے گا۔ ہم تو نہیں ہونگے۔ لیکن امید کی جاسکتی ہے کہ دنیا میں قوانین مزید بہتر ہونگے۔ انصاف دروازے پر ملے گا۔ تعلیم کا دور دورہ ہوگا۔ جنگوں کی بات کرنے والے ختم ہونگے۔

شر بھی ہوگا مگر خیر کا تناسب بڑھ جائے گا۔

ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے شعور کو بلند کریں، ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں میں شعور پیدا کریں کہ وہ کئی سو سال پہلے کی دقیانوسی سوچ سے باہر نکلیں۔

یہ ہمارا ورثہ ہوگا جو ہم چھوڑ جائیں گے۔

امید کرتے ہیں کہ کسی اور کے پاس نہ سہی، خدا کے پاس یہ حساب ضرور محفوظ ہوگا کہ اس کی بنائی ہوئی دنیا کو ہم نے بہتر بنانے میں اپنا کتنا حصہ ڈالا۔

ابو جون رضا

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *