سورہ منافقون – شان نزول

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ ۞ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ۞ هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنفِقُوا عَلَى مَنْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنفَضُّوا وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ ۞ يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۞

اور جب ان سے کہاجائے کہ آؤ اللہ کا پیغمبر تمہارے لئے مغفرت طلب کرے تو وہ اپنا سر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ تکبر کرتے ہو ئے (آنے سے) رک جاتے ہیں۔ ۔ ان کیلئے برابر ہے کہ آپ ان کیلئے مغفرت طلب کریں یا طلب نہ کریں اللہ ہرگز ان کو نہیں بخشے گا بےشک اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا (اورانہیں منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتا)۔ ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسولِ خدا(ص) کے پاس ہیں ان پر (اپنا مال) خرچ نہ کرو تاکہ وہ منتشر ہو جائیں حالانکہ آسمان اور زمین کے خزانے اللہ ہی کے ہیں مگر منافق لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔ ۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم لَوٹ کرمدینہ گئے تو عزت والے لوگ وہاں سے ذلیل لوگوں کو نکال دیں گے حالانکہ ساری عزت تو صرف اللہ، اس کے رسول(ص) اور مؤمنین کیلئے ہے لیکن منافق لوگ (یہ حقیقت) جانتے نہیں ہیں۔ ۔

تاریخ ،حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں اوپر والی آیات کے لیے ایک مفصّل شانِ نزول بیان کی گئی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

عزّوۂ بنی المصطلق کے بعد (یہ جنگ ہجرت کے چھٹے سال سر زمین”قدید”میں واقع ہوئی )مسلمانوں میں سے دو افراد کے درمیان ،جن میں سے ایک انصار میں اور دُوسرا مہاجرین میں سے تھا ، کنوئیں سے پانی لینے کے وقت اختلاف ہو گیا ۔

ایک نے انصار کو اور دُوسرے نے مہاجرین کو اپنی مدد کے لیے پکارا ۔ مہاجر ین میں سے ایک شخص اپنے ساتھی کی مدد کے لیے آیا اور” عبداللہ بن ابی”جو منافقین کے مشہور سرغنوں میں سے تھا، وہ انصار ی کی مدد کے لیے آگے بڑھا اور تب ان دونوں کے درمیان شدید تو تکار ہوئی۔

“عبد اللہ بن ابی “سخت غصّہ میں آگیا جب کہ اس کی قوم کے کچھ اور لوگ بھی وہاں موجود تھے ۔ اس نےکہا :

“ہم نے اس گروہ ِمہاجرین کو پناہ دی اور ان کی مدد کی لیکن ہمارا مُعاملہ اس ضربُ المثل کی مانند ہے جو کہتی ہے :”سمن کلبک یأکلک”(اپنے کتّے کو موٹا کردے تاکہ وہ تجھےکاٹ کھائے )

واللّٰہ لئن رجعنا الی المد ینة لیخرجن الا عزمنھا الاذل۔

“خدا کی قسم !اگر ہم مدینہ پلٹ گئے تو عزّت دار ذ لیلوں کو باہر نکال دیں گے”۔

یہاں عزّت داروں سے اس کی مراد وہ خود اور اس کے پیرو کار تھے ، اور ذلیلوں سے مراد مہاجرین تھے ۔ اس کے بعد اس نے اپنے ساتھ والوں سے کہا:

“یہ اس کام کا نتیجہ ہے جو خُود تم نے اپنے سروں پر تھوپ لیا ہے ۔تم نے انہیں اپنے شہر میں جگہ دی ، اور اپنے مال ان میں تقسیم کیے ۔اگر تم اپنی بچی ہُوئی غذا اس جیسوں کو(اس مد ّ مقابل مہاجر کی طرف اشارہ ہے )نہ دیتے تو یہ تمہاری گردن پر سوار نہ ہوتے ، تمہاری سرزمین سے چلے جاتے اور اپنے قبائل سے جا ملتے ۔

اس موقع پر”زید بن ارقم”نے جو اس وقت ایک نو خیز جو ان تھا “عبدُ اللہ بن ابی”کی طرف مُنّہ کرکے کہا:

“خُدا کی قسم !ذلیل اور کمینہ تو ہی ہے ۔محمد(ﷺ)خدا کی عزّت اور مسلمانوں کی محبّت میں ہیں ۔ خدا کی قسم !میں آج سے تجھے دوست نہیں رکھوں گا “۔

عبداللہ نے چلاّ کر کہا:”اے لڑکے خاموش رہ ، تو اپنے کھیل کود سے کام رکھ !”زید بن ارقم حضرت رسُول (ﷺ)کی خدمت میں آ یا اور سارا ماجرا کہہ سُنا یا ۔

پیغمبر نے کسی کو”عبداللہ “کے پاس بھیج کر اسے بلا یا اور فرمایا:

“یہ کیا بات ہے جو مُجھ سے بیان کی گئی ہے “؟

عبداللہ نے کہا:”اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ پر آسمانی کتاب نازل کی ہے میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور زید جھوٹ بولتا ہے “۔

انصار کے کچھ لوگ وہاں موجُود تھے، انہوں نے عرض کیا :

“یا رسول اللہ (ﷺ)!عبداللہ ہمارا بزرگ ہے ، لہٰذا انصار کے بچّوں میں سے ایک بچّے کی بات اس کے برخلاف قبول نہ کیجئے ۔ لہٰذا پیغمبر (ﷺ)نے ان کا عُذر قبُول کر لیا تو اس موقع پر گروہِ انصار نے “زید بن ارقم “کو ملامت اور سرزنش کی ۔

پیغمبر (ﷺ)نے کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ بزرگان ِ انصار میں سے ایک شخص”اُسید “نامی آ پ کی خدمت میں آ یا اور عرض کیا:”

یا رسول اللہ (ﷺ)!آپ نے ایک نا مناسب وقت میں کوچ کردیا ہے”۔ آپ نے فرمایا:”ہاں !کیا تُو نے سُنا نہیں ہے کہ تیرے ساتھی عبداللہ نے کیا کہا ہے ؟ اس نے یہ کہا ہے کہ جب وہ مدینہ پلٹ جائے گا تو عزّت والے ذلیلوں کو وہاں سے نکال دیں گے”۔

اسید نے کہا:”یا رسول اللہ !اگر آپ چاہیں تو اسے مدینے سے باہر نکال سکتے ہیں ۔خدا کی قسم آپ عزّت دار ہیں اور وہ ذلیل ہے “۔پھر اس نے عرض کیا:”

یا رسُول اللہ (ﷺ)!اس کے ساتھ نرمی کیجیے “۔

عبدُ اللہ کی باتیں اس کے بیٹے کے کانوں تک پہنچیں تو وہ رسُول اللہ (ﷺ)کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:

” میں نے سُنا ہے کہ آپ یہ چاہتے ہیں کہ میرے باپ کو قتل کردیں، اگر ایسا مُعاملہ ہے تو خود مجھے حکم دیجیے کہ میں اس کا سر قلم کرکے آپ کی خدمت میں لے آؤں ،کیونکہ سب لوگ جانتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنے ماں باپ کی نسبت مُجھ سے زیادہ نیک رفتار نہیں ہے ۔میں اس سے ڈرتا ہوں کہ کوئی اُسے قتل کرے اور میں اس کے بعد اپنے باپ کے قاتل کونہ دیکھ سکوں گا اور خدا نخو استہ میں اُسے قتل کر دوں اور اس قتل ِمومن کی پاداش میں جنّت کے بجائے جہنم میں چلا جاؤں “۔

پیغمبر(ﷺ)نے فرمایا:”

تیرے باپ کے قتل کا مسئلہ در پیش نہیں ہے ۔ جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے ،تو اس کے ساتھ مدارا اور نیکی کرتا رہ “۔

اس کے بعد پیغمبر(ﷺ)نے حکم دیا کہ سارا دن اور ساری رات لشکر چلتا رہے ۔دُوسرے دن جب سُورج نکل آیا تو آپ نے ٹھہرنے کا حکم دیا۔ لشکر اس قدر تھک گیا تھا کہ زمین پر سر رکھتے ہی سب گہری نیند سو گئے (اور پیغمبر ﷺ کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگ کل کا ماجرا اور عبداللہ بن ابی کی بات کو بُھول جائیں)

آخر کار پیغمبر(ﷺ)مدینہ میں وارد ہُوئے ۔

زید بن ارقم کہتے ہیں کہ میں شدّتِ غم اور شرم کے مارے گھر کے اندر ہی رہا اور باہر نہ نکلا ۔

اس موقع پر سُورة منافقون نازل ہُوئی کہ جس نے زید کی تصدیق اور عبدُاللہ کی تکذیب کی۔ پیغمبر (ﷺ)نے زید کا کان پکڑ کر فر مایا:”

اے جو ان !خُدا نے تیری بات کی تصدیق کردی ،بالکل اسی طرح سے جیسا کہ تو نے اپنے کانوں سے سُنا اور دل میں محفوظ رکھا تھا ، خُدا نے اس چیز کے بارے میں جو تو نے کہی ، قرآن کی آیات نازل کی ہیں “۔

اس موقع پر عبداللہ بن ابی مدینہ کے قریب پہنچ چکا تھا۔ جب اس نے چاہا کہ مدینہ میں داخل ہو جائے تو اس کے بیٹے نے آ کر اس کا راستہ روک لیا۔ عبداللہ نے کہا:

“وائے ہو تجھ پر ۔ یہ کیا کر رہا ہے “؟

اس کے بیٹے نے کہا ۔ “خدا کی قسم !رسُول خدا(ﷺ)کی اجازت کے بغیر تو مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا ۔اور آج تو سمجھ لے گا کہ عزیز کون ہے ، اور ذلیل کون ؟ “

عبداللہ نے اپنے بیٹے کی شکایت رسول خدا (ﷺ)کی خدمت میں پہنچا ئی ، تو پیغمبر (ﷺ)نے اس کے بیٹے کو پیغام بھیجا کہ اپنے باپ کو مدینہ میں داخل ہونے دو ۔

تب اس کے بیٹے نے کہا:” اب رسولِ خدا کی اجازت ہو گئی ہے لہٰذا اب تمہارے داخل شہر ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے”۔

عبداللہ شہر میں داخل ہوا لیکن کچھ زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ وہ بیمار پڑ گیا اور پھر دنیا سے چل بسا (اور شاید اُسے جان لیوا تپ ِدق ہو گیا تھا)

جس وقت یہ آیات نازل ہُوئیں اور عبداللہ کا جُھوٹ ظاہر ہو گیا تو بعض لوگوں نے اس سے کہا:

“تیر ے بارے میں شدید تر آیات نازل ہو ئی ہیں تو پیغمبر (ﷺ)کی خدمت میں جاتا کہ وہ تیرے لیے استغفار کریں “۔
اس پر عبد اللہ نے اپنے سر کو ہلاتے ہُوئے کہا:

“تم نے مُجھ سے کہا ایمان لے آ تومیں ایمان لے آ یا۔ تم نے کہا زکوٰة دے تومیں نے زکوٰة دی ۔اب اس کے سوا کچھ باقی نہیں رہا کہ کہو ،محمّد (ﷺ) کے لیے سجدہ کر !اِس موقع پر آیت واذاقیل لھم تعالوا نازل ہُوئی .۱؎

حوالہ جات:
۱؎ ” مجمع البیان “زیرِبحث آیات کے ذیل میں کامل ابن اثیر جلد ۲،ص ۱۹۲سیرت ابن ہشام جلد۳،ص ۳۰۲(تھوڑے فرق کے ساتھ )

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *