اقبال اور ہماری خوش گمانیاں

اقبال پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ کہا جانے لگا ہے کہ “نچوڑ نچوڑ” کر رکھ دیا ہے۔

اقبال کو لوگ ان کی شاعری کے تناظر میں دیکھتے ہیں جبکہ اقبال وہ نہیں ہیں جو شاعری میں نظر آتے ہیں۔ وہ سرسید کی فکر سے متاثر فلسفی تھے، جو برصغیر میں روشن خیالی کے باوا آدم گزرے ہیں اور اس کی انتہاء اقبال کو کہا جاسکتا ہے۔

ایرانی فلسفی سروش کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں تمام روشن فکروں کے امام اقبال ہیں۔

اہل تشیع نے ان کو اہلبیت سے عقیدت کی وجہ سے شیعہ بنا ڈالا، اہلسنت ان کو قرآن سے جڑا ہوا اسلام کا سپاہی گردانتے آئے ہیں جبکہ اقبال آمد مہدی اور حضرت عیسی کے نزول کو عجمی فسانہ قرار دیتے تھے۔ اقبال پر اسلام کا لبادہ اس طرح پہنایا گیا کہ وہ ہندوستان میں پیدا ہوئے اور پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی انتقال کرگئے مگر ان کو پاکستانیوں نے اپنایا اور ہندوستانیوں نے بھی مذہب کی وجہ سے ان کو پاکستان کے حوالے کردیا۔

اقبال کی فکر کا آخری دور ری کنسٹرکشن آف ریلیجیس تھاٹ سے پتا چلتا ہے۔ ان کی شاعری کے بھی کئی ادوار ہیں۔ جن میں فلسفہ کی تعلیم کے بعد کی شاعری بہت اہمیت کی حامل ہے۔ اقبال نے کوشش کی کہ اسلام کو فلسفہ اور مغربی سوچ سے ہم آہنگ کیا جائے مگر اس چکر میں وہ اسلام کے دامن کو چاک کر کے چلے گئے۔

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریبان چاک ، یا دامن یزداں چاک

علامہ اقبال کے نزدیک جنت اور دوزخ تمثیلات تھیں وہ انہیں باقاعدہ مقامات نہیں سمجھتے تھے۔ جنت اور جہنم کے حوالے سے تو اقبال نے نہایت واضح الفاظ میں اپنا عقیدہ بیان کیا ہے،

’’جنت اور دوزخ اس (خودی) کے احوال ہیں۔ مقامات یعنی کسی جگہ کے نام نہیں ہیں‘‘۔

مزید لکھتے ہیں،

’’جیسے دوزخ کے بارے میں ارشاد ہے کہ اللہ کی جلائی ہوئی آگ جو دلوں تک پہنچتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر وہ انسان کے اندر بہ حیثیت انسان اپنی ناکامی کا درد انگیز احساس ہے، جیسے بہشت کا مطلب ہے فنا اور ہلاکت کی قوتوں پر غلبے اور کامرانی کی مسرت”

قرآن کے بجائے جنت اور دوزخ کا تفصیلی نقشہ احادیث میں کھینچا گیا ہے۔ انسانی تاریخ میں جنت و دوزخ کا بیانیہ سب سے زیادہ خوفناک ہے اور اقبال کا فلسفہ خودی براہ راست جنت و دوزخ سے ٹکراتا ہے۔

اقبال انسان کو ہر پل مشقت اور جدوجہد میں دیکھنا چاہتے تھے، اسی لیے فلسفہ حرکت ان کے مجموعہ نظریات کا ایک اہم ستون ہے۔ لیکن جنت کا تصور انسان کو سست کاہل اور ہڈ حرام بناتا ہے، یعنی دنیا کا عارضی ہونا مسلمانوں کو مادی ترقی سے روکتا ہے

ابلیس نے جبرائیل سے جو گفتگو کی ہے ، وہ مکمل طور پر کسی نورانی مخلوق کی نفی ہے۔

ہے مری جرأت سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو

دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے میں کہ تو

خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو

گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو

میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ھو ، اللہ ھو اللہ ھو

اقبال نے دراصل اسلام کی واقعی میں تشکیل نو کرنی چاہی تھی۔ اسلام کی ساری عمارت وحی پر کھڑی ہے۔ اقبال نے چاہا کہ اسے اعلی ترین انسانی صلاحیت کے طور پر قبول کیا جائے، اور یوں کسی آسمانی دروازے کو بند کر کے انسان ہی پر فوکس کیا جائے۔ جس طرح عیسائیت میں کیا گیا۔

اقبال سے پہلے سر سید نے بھی وحی کو پیغمبر کی داخلی کیفیت سے تعبیر کیا تھا، ان کے نزدیک فرشتوں کا چونکہ کوئی خارجی وجود ہی نہیں بلکہ یہ فطرت کی قوتیں ہیں اس لیے وحی بھی ایسی ہی ایک قوت کا شاخسانہ ہے، یہ پیغمبر کے دل سے اٹھتی اور اسی پر نازل ہوتی ہے۔ بیچ میں کوئی پیغام پہنچانے والا تیسرا نہیں ہوتا، اور اسے ہی سر سید کے نزدیک اصطلاح میں روح القدس یا جبریل اعظم کہا گیا ہے۔

اقبال ساری زندگی جرمن فلسفے (کانٹ، فختے، ہیگل) کے حصار سے نکل نہیں پائے اور ان کے لیے ممکن بھی نہیں تھا۔ انہوں نے خدا کو چھوڑ کر مطلق ایگو اور حقیقی لامتناہیت جیسے تصورات اختیار کیے اور مطلق ایگو کو ایگو (انسان) کے کنٹرول میں دے دیا، جب کہ حقیقی لامتناہیت (خدا) کے لیے متناہی (انسان) کو لازم سمجھا۔ یہ سب ہیگیلین ازم ہے۔

ابو جون رضا

3

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *