بقائے دوام (آخری حصہ)

جدید اخلاقیات کے مطابق اخلاقی عمل کا تعین’نتیجہ‘ کرتا ہے، جیسا کہ میں نے Consequentialism کے حوالے سے وضاحت کی ہے۔ کسی بھی انسان کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کے کردار کو اس کے عقائد کے حوالے سے جج کرے اور اس کی زندگی کو خطرے میں ڈالے۔

یہ حقیقت ہے کہ سچ ہماری خواہشات سے الگ اپنا وجود رکھتا ہے اور اس سچ کی جستجو کرتے رہنا زندہ انسانوں کی علامت ہے۔ مذہبی انسان کی سب سے بڑی غلط فہمی اس کا یہ عقیدہ ہے کہ اس نے ”حتمی سچ“ کو جان لیا ہے یا اسے پا لیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف عقیدہ رکھتا ہے کہ ”حتمی سچ“ موجود ہے۔ اس سچ کی ماہیت کو جاننا مذہبی انسان کے بس سے باہر ہے۔ وہ جسے تیقن سمجھتا ہے، وہ ہمارے لیے واہمہ ہے۔ اس کے پاس بس دعوے ہی دعوے ہیں، ثبوت کوئی نہیں ہے۔ ہر دعوے کی تصدیق کے لیے ایک اور دعویٰ کر دیا جاتا ہے، لیکن ثبوت کسی ایک دعوے کا بھی موجود نہیں ہے۔

عمانوئیل کانٹ نے جب خدا کو فرض کر لیا تو اس کے ساتھ اسے مزید دو تصورات فرض کرنے پڑے۔ کانٹ کا خیال تھا کہ دوسرے دونوں تصورات (بقا اور ارادے کی آزادی) منطقی طور پر خدا کے تصور سے جُڑے ہوئے ہیں۔

کانٹ لکھتا ہے،

”مابعد الطبیعات کا موضوع تحقیق ، اصل میں تین اعیان ہیں: وجودِ الٰہی، ارادے کی آزادی اور بقائے روح۔ دوسرے تصور کو پہلے کے ساتھ ربط دینے سے تیسرا تصور ایک لازمی نتیجے کے طور پر حاصل ہوتا ہے۔“

(تنقید عقل محض)

کانٹ مزید کہتا ہے،

”اگر ہمیں ان (اعیان) کا علم حاصل ہو جائے تو الٰہیات، اخلاقیات اور ان دونوں کا مجموعہ یعنی مذہب صرف نظری عقل کا پابند ہو جائے گا۔“

(تنقید عقل محض)

واضح یہ ہوا کہ کانٹ یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ مابعد الطبیعاتی اعیان (خدا، آزادی، روح) کو نظری عقل کا پابند کرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کانٹ نے ان تینوں اعیان کے لیے دلائل پیش کر دیے تھے، بلکہ یہ کانٹ کی وہ خواہش تھی جس کی نشو و نما بچپن میں ”ماں کی آغوش“ میں ہوئی، اور اسی خواہش کے پیشِ نظر اس نے مذہبی عقیدے کے لیے (اپنے تئیں)ایک الگ جگہ بنا لی۔ اس کی خواہش دلائل سے ماورا تھی، یعنی نظری عقل کے حصار میں نہیں تھی۔

یہی ”ماں کی آغوش“ کے اثرات تھے، جن سے کانٹ نہ نکل پایا۔ اسی طرف برٹرینڈ رسل نے توجہ مبذول کرائی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تصورات و عقائد جب ایک بار گھڑ لیے جاتے ہیں تو پھر وہ ”انسانی میراث“ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہر نسل انہیں آگے منتقل کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ مذہبی تصورات بھی عہد طفولیت کے انسان کی ایسی ہی میراث ہیں، جو بچوں کے اذہان میں راسخ کر دیے جاتے ہیں۔

لیکن بہرحال سچ ہماری خواہشات سے الگ اپنا وجود رکھتا ہے، اور وہ سچ صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب پوری سچائی کے ساتھ اس کی طرف قدم اٹھایا جائے۔ سچ کو سچائی کی ضرورت ہے، عقائد کی نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قدیم اور خوف زدہ انسان کے تعصبات کو سمجھا جائے۔

عظیم فلسفی ’بقا‘ کے منکر نہیں ہیں، بلکہ بقا کے مخصوص الٰہیاتی تصورات کے منکر ہیں۔ عظیم ارسطو نے اپنی کتاب De Anima (روح کے بارے) میں افلاطون کے برعکس، زور دار دلائل دے کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ جسم کی موت روح کی موت بھی ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک بقا کا صرف ایک تصور حقیقی ہے، اور اس حقیقی تصور کے ہم سب گواہ ہیں۔

وہ تصور یہ ہے کہ عظیم لوگوں کے خیالات جدید زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ وہ جدید جامعات میں پڑھائے جاتے ہیں۔ وہ لوگ ہماری سوچوں میں، ہمارے علوم، ہماری اخلاقیات، ہمارے عمل و کردار میں زندہ ہیں۔ اس کے علاوہ جسمانی بقا کی خواہش کا الٰہیاتی تصور شہوت انگیز خیالات کا انبار ہے، جو انسان کو صرف جنسی تلذذ اور عیش و عشرت کا لالچ دے کر ایک خیالی مگر غیر منصفانہ دنیا کا تصور دیتا ہے۔ ہمارے لیے وہ باطلِ محض ہے! اگر سچ درکار ہے تو بقا کے مذہبی تصور کو مسترد کرتے ہوئے حقیقی بقا کو سمجھنا پڑے گا، اس تصور بقا کی گواہی موجود ہے۔

ختم شد

ابو جون رضا

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *