بیسویں صدی کا ایک بڑا فلسفی برٹرینڈ رسل بستر مرگ پر تھا جب ایک خاتون نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر کوئی ایسی دنیا نہ ہوئی جس میں اس دنیا میں ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کیا جا سکا تو کیا یہ ناانصافی نہیں ہوگی؟
بیسویں صدی کے اس عظیم مغز کا جواب تھا کہ “محترمہ یہ کائنات انصاف سے محروم ہے۔”
میرا ماننا بھی یہی ہے کہ ہمہ وقت انصاف ہی ہو ، یہ ممکن نہیں ہے، البتہ انسان مبنی بر انصاف معاشرے کے قیام کی کوشش کرتا رہے تو ناانصافی کو کم کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ خود انسان نے طے کرنا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں انسانی اقدار کو کہاں تک نافذ کرنا ہے۔ اگلی دنیا پر یقین اس دنیا میں ناانصافی کے فروغ کی ایک بنیادی وجہ بھی ہے۔
انقلاب فرانس کے بعد جب مسیحیوں کا شیرازہ بکھرا اور ریاست کو چرچ سے الگ کر دیا گیا تو ایک بہتر انسانی و اخلاقی سماج کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ اس سماج میں متحرک اصول و قواعد کا ماخذ فلسفیوں کے خیالات تھے، جن کی بنیاد عقیدے پر نہیں بلکہ عقل کی آفاقیت پر تھی۔
عقیدہ پرست یہ دلیل دیتے ہیں کہ بہت سے قاتل اس دنیا میں اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے بچ جاتے ہیں، جب تک ان کا اگلی دنیا میں حساب نہ ہوا تو انصاف نہیں ہوگا۔ قاتل کو سزا دینا کسی بھی صورت میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ بیشتر ممالک میں موت کی سزا کو انسانی و اخلاقی اقدار کے پیشِ نظر اس لیے ختم کر دیا گیا ہے کہ قتل کی سماجی و نفسیاتی وجود ہوتی ہیں، اور ان وجوہ کو ختم کر دیا جائے تو جرائم کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ بلاشبہ انسانی عقل ہی طے کرے گی کہ بہتر معاشرے کے قیام کے کیا لوازمات ہیں۔ قاتل کے عمل کا بھیانک انجام صرف انتقام ہوتا ہے۔ بنیادی وجہ یہ کہ معاملہ صرف قاتل کا نہیں بلکہ مقتول کا بھی ہے۔ کوئی بھی ہستی اس مقتول کے قتل کا ازالہ نہیں کر سکتی۔ کوئی بھی ہستی جائز و ناجائز جنگوں اور دہشت گردی میں مرنے والے، معذور ہونے والے معصوم لوگوں کے قتال کا ازالہ نہیں کر سکتی۔
قاتل کی پھانسی مقتول کے قتل کے لیے مبنی برانصاف عمل نہیں ہے۔ نہ ہی مقتول کو اگلی دنیا میں جنت دے کر اس کے قتل کا مداوا نہیں کیا جا سکتا۔ جو پانچ برس کا بچہ، حاملہ خاتون جنگ یا دہشت گردی میں مارے گئے ان کو انصاف دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے جو کہ مقتول اٹھاتا ہے کہ ’’مجھے قتل کیوں کیا گیا؟‘‘
نوع انسانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ جنگوں کی صورت میں اربوں معصوم لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہٹلر کو لاکھوں بار پھانسی دے بھی دی جائے، پھر بھی مقتولین کو انصاف فراہم نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی اس دنیا میں، نہ ہی کسی اور دنیا میں! اسی طرح صدام حسین نے لاکھوں مروا دیے، لیکن وہ پھانسی اکیلا ہی چڑھا، اگلی دنیا میں لاکھ بار پھانسی چڑھ بھی جائے تو مقتولین کو کیا فرق پڑے گا! کائنات میں موجود انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا عمل ایک منطقی غلطی ہے جس کی کسی بھی صورت میں تصحیح ممکن نہیں ہے۔
غور کیجئے، جسے ہم انصاف سمجھتے ہیں، اس کا حصول آخرت میں انصاف نہیں بلکہ انتقام ہے۔
ایک مثال سے سمجھیے ،
ایک خاتون کے ساتھ دس لوگوں نے ریپ کیا، ایک پانچ سال کی بچی کا کسی مولوی نے ریپ کر ڈالا، ایک شخص، جو کہ بے گناہ تھا، ساری زندگی جیل میں پڑا رہا، وغیرہ وغیرہ، ان کو کبھی بھی، کسی بھی صورت میں، ان کی پہلی پوزیشن پر واپس نہیں لایا جا سکتا۔ یعنی خاتون ریپ سے پہلے جیسی تھی، پانچ سالہ بچی اور جیل میں پڑا ہوا بے گناہ انسان جس کی زندگی جیل میں کٹ گئی۔ انہیں ان جرائم سے قبل کی پوزیشن پر لانا ناممکن ہے، اور یہی میرے نزدیک انصاف ہے، اور یہی وہ انصاف ہے جس سے کہ یہ کائنات محروم ہے۔ اس کے علاوہ فقط انتقام ہے۔ خدا کے پاس بھی یہی انتقام ہے، یہاں نہیں تو وہاں سہی۔ اس سے ماورا ہو کر سوچنا کسی کے لیے ممکن نہ تھا۔
میں نے پہلے بھی بیان کیا کہ علامہ اقبال نے اپنی کتاب ’’فکرِ اسلامی کی نئی تشکیل کے چوتھے لیکچر کے آخری صفحے پر اس حوالے سے بحث کی ہے۔ اقبال کی خواہش تھی کہ کسی طرح خدا کو انتقامی عمل سے بچانے کا ایک محفوظ راستہ تلاش کیا جا سکے۔
اقبال کہتے ہیں کہ ’’جنت اور دوزخ حالتیں ہیں، بستیاں نہیں ہیں۔‘‘ یعنی جنت و دوزخ مقامات نہیں ہیں، بلکہ مسرت اور تکلیف کی کیفیات ہیں، جو ’’اچھے‘‘ اور ’’بُرے‘‘ اعمال سے جڑی ہوئی ہیں۔ اقبال مزید لکھتے ہیں کہ ’’دوزخ ابدی تکلیف دینے والا کوئی گڑھا نہیں ہے، جسے کسی انتقام پسند خدا نے بنایا ہو۔‘‘
علامہ اقبال جانتے تھے کہ دوزخ کا جو تصور پیش کیا گیا ہے یہ ’انتقام‘ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ میں یہاں اقبال سے جس نکتے پر متفق ہوں وہ لفظ ’’انتقام پسند‘‘ ہے، جسے دنیا میں بھی بروئے کار لایا جاتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کہ جس سے دنیا میں انتقام نہیں لیا جا سکا، اس سے آخرت میں لے لیا جائے گا۔
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ جب انصاف کا حصول ممکن ہی نہیں ہے تو کیا اس کے حصول کی خواہش کو بھی ترک کر دینا چاہیے؟
میرا خیال ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ فلسفی دو بڑے مذاہب (مسیحیت اور اسلام) سے صدیوں قبل انصاف کا کوئی منطقی مفہوم اخذ کرنے اور اس کے حصول کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ میرا اس حوالے سے یہ اصرار ہے کہ انصاف کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب سماج میں سے ناانصافی تک لے جانے والے عوامل کو کم کر دیا جائے یا ان کا ’’خاتمہ‘‘ کر دیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسانی سماج کو عقلی حوالوں سے زیادہ سے زیادہ بہتر بنایا جائے۔ اس میں سے ناانصافی، عدم مساوات اور استحصال تک لے جانے والے ان عوامل کا خاتمہ کیا جائے جو جرائم پر آمادہ کرتے ہیں۔ یعنی ناانصافی کو کم کر کے انصاف میں اضافہ کیا جا سکتا ہے، نہ کہ گھناؤنی سزائیں دے کر!
انسانی معاشرہ فی الوقت گہرے تضادات میں پھنسا ہوا ہے جن کی نوعیت طبقاتی، علاقائی، مذہبی، جنسی وغیرہ ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ان عوامل کو سمجھ کر ان سے منسلک جرائم میں کمی لائی جائے۔ فی الوقت ہم جرائم میں کمی لا کر ہی انصاف پر مبنی معاشرے کے قریب جا سکتے ہیں۔
جدید شعور ماورائیت کے خوف کے حصار سے ماورا ہو چکا ہے۔ جوں جوں عقلی و منطقی فکر پروان چڑھتی جائے گی، خوف رخصت ہوتا جائے گا۔ خوف کی رخصتی مزید منطقی فکر کو پروان چڑھائے گی۔ یہ دو طرفہ عمل ہے۔یہ محض خیالی باتیں نہیں ہیں، بلکہ جدید ترقی یافتہ معاشروں کی ”کنڈیشن“ ہے۔ اگرچہ اس کا آغاز جدیدیت کے ساتھ ہو گیا تھا، تاہم مابعد جدید فکر اور ثقافتی حالت نے مذہبی ”مہا بیانیوں“ کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ آج ہمارے لیے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ صدیوں پرانی کتابوں میں کیا ”اخلاقی احکامات“ درج ہیں۔ بلکہ ہمارے اپنے معاشرے کی اخلاقی حالت کی ”بنیاد“ کو سمجھنا زیادہ اہم ہے۔
(جاری)