جدید مغربی فکر میں اخلاقیات سے متعلق مختلف نظریات رائج ہیں۔ ان میں سے ایک تھیوری کو Consequentialism کہتے ہیں۔ اس کا ذکر ایک دفعہ چائے پر استاذ گرامی جناب جواد رضوی صاحب نے بھی کیا تھا۔
جیسا کہ نام سے ہی واضح ہے کہ اگر کسی عمل کا نتیجہ اچھا نکلتا ہے تو وہ اچھا عمل کہلاتا ہے۔ اس کے سماج پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جھوٹ بولنا یا چوری کرنا غیر اخلاقی عمل اس لیے ہیں کہ ان اعمال کے نتائج بُرے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر کسی شخص کی جان کو خطرہ لاحق ہے تو اس کی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولا جا سکتا ہے۔
اخلاقیات سے متعلق دوسری تھیوری کو Deontology کہتے ہیں۔ اس تھیوری کے مطابق ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ اخلاقی اصولوں پر عمل کرے۔ اس میں نتیجہ نہیں بلکہ اصول کو مقدم سمجھا جاتا ہے۔ انہی دو تھیوریوں کی مختلف اشکال مغربی ممالک میں رائج ہیں۔ جبکہ مذہبی آئیڈیالوجی کے مطابق اخلاقی عمل کی بنیاد خوف ہے، میرے نزدیک خوف اپنی سرشت میں ایک منفی اور غیر اخلاقی “بنیاد” ہے۔ ممکن ہے بعض صورتوں میں بہتر نتائج بھی پیدا کرتا ہو۔ تاہم خوف کو اخلاقیات کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
مہذب اور ترقی یافتہ دنیا میں خوف کی جگہ ذمہ داری اور لالچ کی بجائے احساسِ فرض کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ فرض کی ادائیگی اپنی سرشت میں ایک اخلاقی عمل ہے، لیکن یہ فرائض ایک انسان کے دوسرے انسان اور سماج کی طرف متعین ہیں۔ ان فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس ابتدائی تعلیم کے دوران اجاگر کر دیا جاتا ہے۔
اخلاقی عمل کو مذہب سے جوڑنے کا دعویٰ صرف مذہبی معاشروں تک محدود ہے۔ اپنی کُلیت میں یہ دعویٰ قطعی طور پر بے بنیاد ہے۔ سیکولر ممالک میں رائج اخلاقیات جو کہ مذہبی اخلاقیات سے بنیادی طور پر مختلف ہے، جب کہ اس کی عملی شکلیں مذہب کے نظری مقدمے کے ابطال کا جواز ہیں۔ مذہبی معاشروں میں عملی انسانی اخلاقیات سے کُھلا انحراف مذہبی مقدمے کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔
اخلاقیات محض خیالات اور احکامات کی جگالی کرنے کا نام نہیں ہے۔ نظری اخلاقیات کا اصل امتحان عمل میں ہوتا ہے۔ نظری اخلاقیات میں جو ”ہونا چاہیے“ وہ ہو رہا ہے یا نہیں؟ اگر وہ نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب ہے کہ اخلاقی عمل کی قوتِ محرکہ کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اگر کسی ملک میں عبادات پورے زوروں پر ہوں، اور اخلاقی عمل کا کُلی فقدان ہو تو یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ عبادات کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عبادات فرد کا ذاتی معاملہ ہے، جبکہ اخلاقیات سماجی ہوتی ہے۔اسی طرح عقیدہ فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔ عقیدہ ہو یا نہ ہو، سماج پر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا، لیکن اخلاقیات کا بحران سماج کا زوال اور انحطاط بن جاتا ہے۔ جدید مغربی معاشروں نے عملی طور پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ اخلاقیات بنیادی ہے، جب کہ عقیدہ ثانوی ہے۔
سیکولر معاشروں میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ نیکی اس لیے نیکی ہے کیونکہ اس کے سماج پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میں نیکی اس لیے کرتا ہوں تاکہ میرے ساتھ بھی نیکی کی جائے۔ میں اگر خیر کا طالب ہوں تو خیر کو عام کرنے کے عمل میں مجھے خود بھی شامل ہونا چاہیے۔ انسان کی اگر کوئی فطرت ہے تو یہی کہ وہ ”سماجی حیوان“ ہے۔ اس لیے ہر وہ عمل جو سماجی وحدت کے لیے نقصان دہ ہو، جو اپنی سرشت میں ردِ سماج ہو وہ غیر اخلاقی عمل کہلاتا ہے، جو خیر اور نیکی کی بجائے بُرائی کو پروان چڑھاتا ہے۔ سیکولر ممالک میں بنیادی اخلاقیات سے متعلق قضایا منطقی طور پر حل کر لیے گئے ہیں۔ پاکستان چونکہ ایک ”اسلامی ملک“ ہے، جس میں رہنے والے مسلمان آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اخلاقیات کی بنیاد صرف خدا ہوتا ہے۔ حالانکہ یہ بات مکمل طور پر غلط ہی نہیں اس میں گہرا تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ اگر خدا اخلاقیات کی بنیاد ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے تو پھر خدا کو دنیا میں سزائیں مسلط کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر خدا کا نام جرائم کو روک سکتا ہے تو پھر اسے روکنا چاہیے۔ لیکن جرائم کا ارتکاب ہوتا ہے اور ان کی سزائیں بھی متعین ہیں۔ اور جہاں قانون سخت ہو وہاں زیادہ لوگ سزاؤں کے ڈر سے غلط کام نہیں کرتے۔
اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ خدا کا نام جرائم کو روکنے یا اخلاقی عمل کے لیے کافی نہیں ہے۔
اگر خدا اخلاقیات کی بنیاد نہیں ہے اور تمام خدائی احکامات کے باوجود جرائم اور گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے، تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اخلاقی سدھار کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت ہے۔ سیکولر معاشروں میں اس بنیاد کو عقل تلاش کرتی ہے، جب کہ مذہب کے پاس صدیوں پرانے گھڑے گھڑائے فارمولے ہوتے ہیں، جو جدید معاشروں میں اپنے جواز کی نظری اور عملی بنیادوں کو کھو چکے ہیں۔ نظری جواز سے مراد یہ کہ اخلاقی احکامات جس سماجی ماحول میں لاگو ہوئے وہ سماجی بنیاد موجود ہی نہیں ہے، اور جب نظری احکامات کی سماجی بنیاد موجود نہیں ہے، تو ان پر عمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(جاری)