آخرت پر اعتراض کا ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ خدا کا کام خبر دینا تھا، اس پر لازم نہیں ہے کہ وہ انسان کو نظارے بھی کرائے، خبر دینا کیونکہ عقلی بنیادوں پر درست عمل ہے اس لیے اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے جواب میں فلاسفہ کہتے ہیں صرف خبر دی جاتی تو پھر بھی قابل قبول تھا۔ سوال تو اس وقت اٹھا جب خبر اتنی بڑھائی گئی کہ اس میں جنت کی حوریں، باغات ، عرب میں پائے جانے والے پھل، غلمان ، ہیرے موتی، سونا چاندی، جنتیوں کے طبقات، اور دوزخ میں پیپ ، تھوہڑ کا درخت، حمیم، آگ ہی آگ، زنجیر ، گرز کا زکر بھی آگیا۔
اب اگر یہ پوچھا جائے کہ صرف آخرت میں سوال جواب کی خبر دیتے تو پھر بھی کچھ مناسب تھا، یہ انسانی شہوات کو مطمئن کرنے والی چیزوں کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے بہتر تو یہ ہوتا کہ ہر انسان کو کچھ نہ کچھ آخرت کا مشاہدہ کرا دیا جاتا۔
لیکن کیونکہ مادی دنیا میں یہ ممکن نہیں تھا اس لیے غیب پر ایمان رکھنے کو کہا گیا۔
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی عقل اتنی بلندی پر پرواز کرتی ہے کہ بیکن اس دور میں سائنس اور اور آرٹ کی بین الاقوامی لغت پیش کرتا ہے جب دنیا میں سائنس اور آرٹ کا وجود ہی نہیں تھا۔ اس نے اس وقت علم کی ضرورت کے بارے میں لکھا جب معلومات کی تاریخ لکھنا ممکن نہیں تھا۔
یعنی انسانی فکر عرش معلی تک پہنچ جاتی ہے مگر خدا زمین پر انسانی ذہن کو مطمئن نہیں کرپاتا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اقبال بقائے دوام پر کیا کہتے ہیں؛
’’جنت اوردوزخ حالتیں ہیں، بستیاں نہیں ہیں۔ قرآن میں ان کی تشریح اندرونی حقیقت کی بصری پیش کش ہے، یعنی کردار۔ جنت وہ خوشی ہے جو احساس سے پیدا ہوتی ہے کہ فنا کر دینے والی قوتوں پر غلبہ حاصل کیا گیا۔ اسلام میں کوئی ایسی شے نہیں ہے جسے ابدی لعنت کہا جا سکے۔ بعض آیات میں جو ’’خلود‘‘ کا لفظ دوزخ کے بارے میں استعمال ہوا ہے اس کے مطلب کو بیان کرتے ہوئے خود قرآن کہتا ہے کہ صرف کچھ وقت ہے۔ (النباء 78:23)
’’دوزخ جیسا کہ قرآن سمجھتا ہے، ابدی اذیت دینے والا کوئی گڑھا نہیں ہے۔ جسے کسی “انتقام پسند” خدا نے بنایا ہو۔ یہ ایک اصلاح کرنے والا تجربہ ہے، جو کسی سخت کوش ایگو کو دوبارہ اتنا حساس بنا دے کہ وہ خدا کی عظمت کی ہوا کو محسوس کر سکے۔ جنت کسی تعطیل کا نام نہیں ہے۔ زندگی ایک ہے اور مسلسل ہے۔ انسان ہمیشہ آگے بڑھتا ہے تاکہ وہ لامتناہی حقیقت سے روشنی حاصل کرسکے‘‘
(محمد اقبال، ’’فکر اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘، چوتھا لیکچر)
اقبال اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے کہ خدا انتقام لینے والی کوئی شخصیت نہیں ہے جس کا کام بس آخرت میں بدلے لینا ہے۔ اسی لیے انہوں نے بڑی کوشش کی کہ خدا پر سے انتقام کی چھاپ کو ختم کیا جائے۔
ملا کا لوگوں کے ذہنوں کے ساتھ کھلواڑ یہ ہے کہ انہوں نے تصورِ انصاف کو خدا اور آخرت سے جوڑ دیا۔ میں نے امام خمینی کی مثال دی کہ انہوں نے ہٹلر کو پیش کردیا کہ اگر ہٹلر نے ساٹھ لاکھ لوگوں کو قتل کیا تھا تو دنیا کا قانون اسے صرف ایک ہی بار سزائے موت دے سکتا ہے، لیکن خدا اسے بار بار زندہ کر کے مارتا رہے گا۔
تعجب ہے کہ یہ لوگ انتقام اور انصاف کے مفاہیم سے آگاہ نہیں ہیں۔حالانکہ قرآن میں ”انتقام“ کا لفظ کئی بار استعمال ہوا ہے۔ یاد رکھیے کہ سزا انصاف کا متبادل نہیں ہوتی۔ سزا صرف جرم کی سزا ہوتی ہے، جو مجرم کو دی جاتی ہے۔ جس کے ساتھ جُرم ہوا ہو اور جُرم کے دوران وہ جس اذیت سے گزرا یا گزری ہو، اس کا ازالہ ناممکن ہے۔ انصاف صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب جرائم کا قلع قمع کر دیا جائے۔ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل ہو جہاں جرائم مفقود ہوں۔
جہنم کی آگ کو ’انصاف‘ سمجھنا اپنے آپ میں غلط ہے۔ وہ سزا ہے، انصاف نہیں۔ افراد سے متعلقہ جرائم میں انصاف مسلسل”ہونے“ کا عمل ہے۔ یہ جاری و ساری ہے، اور کُلی انصاف ممکن نہیں ہے۔ اس کائنات کی بنتر ہی ایسی ہے۔ شاید کبھی وہ وقت بھی آئے کہ ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جائے جو جرائم سے پاک ہو۔ اگر اس بات سے اتفاق کربھی لی جائے تو پھر اس وقت سے خوف محسوس ہوتا ہے کہ جب ایک لونڈی جسے بیسیوں جگہوں پر فروخت کیا جاتا تھا، وہ بھی انصاف کا مطالبہ نہ کر لے۔ کیونکہ انصاف تو وہی ہے جو انصاف کے مطابق ہے، اور اگر وہ انصاف کے اصولوں سے انحراف ہے تو اس پر کسی مطلق العنان کے حکم کا ٹھپا لگا کر اسے انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔
(جاری)