بقائے دوام (2)

اس نظریہ کی تحلیل کرتے ہیں۔

ایک بات بالکل واضح ہے کہ عقیدے میں حتمیت ہے، علم نہیں۔ جبکہ علم میں تشکیک ہے، حتمیت نہیں۔

تاہم اہم نکتہ جس پر میں بات کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ مذہبی مفہوم میں بقا کا تصور بنیادی طور پر ایک موروثی تصور ہے۔ یہ تصور انسان کے اندر انتہائی شدت کے ساتھ راسخ کیا جاتا ہے۔ اکتساب کا ایک پورا عمل ہے جس میں سے بچہ گزرتا ہے۔ اور بچپن میں اذہان میں ٹھونسے گئے تصورات اور عقائد ساری زندگی انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس کی وضاحت کے لیے برٹرینڈرسل نے عمانوئیل کانٹ کی مثال دی ہے۔ رسل لکھتا ہے،

”یہ عام باتیں ہیں کہ پرانے زمانوں میں خدا کے وجود کے بارے میں تین قسم کے مفکرانہ دلائل دیے جاتے تھے، ان سب کو عمانوئیل کانٹ نے اپنی کتاب ”تنقید عقلِ محض“ میں مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جونہی اس نے ان دلائل کو رَد کیا ایک نئی اخلاقی دلیل تراش دی، جس سے وہ بڑا متاثر اور مطمئن تھا۔ وہ بہت سے لوگوں کی طرح دانشورانہ معاملات میں روایت پرستی پر مبنی خیالات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار تو کرتا تھا لیکن جو خیالات اسے ماں کی آغوش میں ورثے میں ملے تھے ان سے پیچھا چھڑانے میں ناکام رہا، اسی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ علمِ نفسیات کے ماہرین کیوں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کی ابتدائی رفاقتیں اس کی آنے والی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔

(میں مسیحی کیوں نہیں ہوں؟ صفحہ 24)

فلسفیوں کا کہنا ہے کہ عہد قدیم کے خوف زدہ انسان نے پریشان کن حالات میں خدا کا تصور تراشا اور اس کے ساتھ ایک اضافی ”تصورِ بقا“ بھی گھڑ لیا۔ اس بارے میں علم البشریات کے ماہرین نے کتابیں رقم کی ہیں۔ وہ کتابیں، اگرچہ، ہمیں ہر سوال کا جواب تو نہیں دیتیں، لیکن ہمیں اس قابل ضرور بنا دیتی ہیں کہ اپنی تنقیدی سوچ کو بروئے کار لا کر عقل سے عاری ابتدائی انسان کی خواہشات اور مبنی بر خوف مذہبی عقائد کے محرکات کو سمجھ سکتے ہیں۔

عہدِ قدیم کے انسان نے بقا کی خواہش کو جنم دیا، اور دیومالائی، اساطیری کہانیوں سے اپنی خواہش کی تسکین کے لیے جوابات بھی تراش لیے۔ یہ ایسے جوابات ہیں جن کی ”سچائی“ کی تصدیق کبھی نہ ہو سکی۔

ایک بات پر غور کیجئے۔

خدا نے لاکھوں پیغمبر اتار دیے، لیکن کوئی ایسا ذریعہ اختیار نہ کر سکا کہ ذہین انسانوں کے متجسس ذہن کو “آخرت” کے حوالے سے مطمئن کر پاتا۔ ان سوالات سے متعلق بے چینی اور عدم اطمینان نے مسلسل انسانوں کو اپنے حصار میں رکھا۔ یہ شاید اس سوچ کی نارسائی ہے کہ ایسے ذرائع اختیار نہ ہوپائے ، جو کوئی ٹھوس شہادت فراہم کر سکتے۔

زیادہ سے زیادہ آخرت کو اگر ثابت کیا جاتا ہے تو خوابوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ ایک انسان خواب میں پوری دنیا کا چکر لگا لیتا ہے مگر جب سو کر اٹھتا ہے تو بستر پر ہی موجود ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ قدیم انسان یہ نہیں جانتا تھا کہ خواب اصل میں شعور کی ہی کارستانی ہے ۔ اب سائنس نے بتا دیا ہے کہ شعور مختلف تصورات کا ملغوبہ ، ناآسودہ خواہشات کا مکسچر بنا کر انسان کو خواب میں دکھاتا ہے۔ اگر خواب کا آخرت سے تعلق ہوتا تو “پیدائشی اندھا انسان بھی خواب دیکھتا”.

دوسری بات یہ کہ خواب میں انسان کوئی ایسی چیز نہیں دیکھ پاتا جو دنیا میں وجود نہیں رکھتی۔ اگر جنت و دوزخ کو خواب میں ہر انسان کو دکھایا جاتا تو پھر آخرت کے تصور کو “سچ” مانا جاسکتا تھا۔

(جاری)

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *