بقائے دوام

اسد سر سے گفتگو کے تناظر میں ایک پوسٹ لکھنا شروع کی تھی۔ “آئیے عقیدہ کو عقل کے حضور پیش کریں” ۔ میری طبیعت خراب ہوئی۔ ڈاکٹر نے میگرین بتایا ہے، دوائیں دیں جن سے دماغ کچھ سویا سویا رہا، اس وجہ سے آج اسد سر کی بقائے دوام پر گفتگو کو صرف سنتا رہا، گفتگو کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ شام میں کچھ افاقہ ہوا تو میں نے رسل کی کتاب “میں مسیحی کیوں نہیں” اور کانٹ کی کتاب “تنقید عقل محض” سے کچھ باتیں اسد سر کے گوش گزار کیں۔ چائے پر گفتگو چلتی مگر عباس بھائی شریک سفر ہوئے اور گاڑی کا رخ فلسطین کی طرف مڑ گیا.

آخرت کے تصور سے دو باتیں وابستہ ہیں۔ ایک ، پوچھ گچھ، یعنی فلاں کام کیوں کیا، فلاں ظلم کیا سوچ کر انجام دیا وغیرہ

دوسرا تصور پہلے تصور سے ہی جڑا ہوا ہے ، یعنی برے کام پر مار پیٹ، دوزخ کی آگ ، اچھے کام پر حوریں، باغات ، شراب کی نہر وغیرہ۔۔

امام خمینی اپنی کتاب “معاد” میں لکھتے ہیں کہ اگر اس دنیا میں کوئی شخص ظلم کرتا ہے مثال کے طور ہٹلر جس نے ساٹھ لاکھ انسان مار دیے ، کیا اس کی سزا صرف اتنی ہی ہونی چاہیے کہ اس کو پھانسی پر چڑھا دیں؟ عقل یہ تقاضا کرتی ہے کہ کم سے کم اس کو اتنے ہی لوگوں کے بدلے میں بار بار زندہ کرکے قتل کیا جائے، تب انصاف کا تقاضا پورا ہوگا۔

(جاری)

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *