علم حدیث اور ہمارے زاکرین

میں زمانے دراز سے علوم اسلامیہ اور خاص کر علم حدیث کا طالب علم رہا ہوں ۔ میں اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ پورے ذخیرہ حدیث میں کوئی ایک ایسی روایت نہیں ہے جس کی قبولیت کی بنیاد “نبی کریم” ہوں۔ تاریخ حدیث میں روایت کی قبولیت کی بنیاد راوی اور مولف رہے ہیں۔ یعنی کس ثقہ راوی نے کونسے ثقہ راوی سے روایت نقل کی۔ محمد بن علی ابن بابویہ نے من لا یحضرالفقیہ میں ان تمام روایات کو نقل کیا جو ان کے نزدیک “صحیح” تھیں ۔ ان میں سے زیادہ تر کا سماع انہوں نے اپنے استاذ “ولید” سے کیا تھا۔ لیکن شیخ طوسی کے نزدیک ان میں سے بیشتر روایات قابل قبول نہیں تھیں۔

سند کے بعد دوسرا مرحلہ متن کا آتا ہے۔ کن حالات میں بات کی گئی ہے۔ مخاطب کون ہے؟ سوال پوچھا گیا تھا یا درس دیا جارہا تھا؟ شہر کونسا ہے؟ طلاب کی محفل تھی یا بادشاہ کا دربار تھا۔ یہ متفرق امور ہیں جو متن کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

ایک مثال سے سمجھیے۔

بحار میں موجود قول امام پیش کیا جاتا یے کہ ” بخار کے مریض کو سیب کھلاؤ، اس کو سیب فائدہ کرے گا”

حدیث کے طالب علم کے سامنے جب یہ روایت آئے گی تو اس قول کی پہلے سند دیکھی جائے گی۔ راوی کون ہے؟ کہاں سے تعلق رکھتا تھا؟ اس کے بارے میں علمائے رجال کیا کہتے ہیں؟ پھر متن دیکھا جائے گا۔ مخاطب کون ہے؟ بخار کس طرح کا ہو جو سیب فائدہ دے گا؟ کیا دنیا کے ہر خطے میں پائے جانے والے بخار کے مریض کو سیب کھلایا جائے؟ بخار کے ساتھ ساتھ اگر انسان کو ذیابطیس بھی ہو تو کیا سیب فائدہ دے گا؟

یہ معمولی باتیں ہیں جن کو روایت کو پرکھتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ اگر تفصیل سے جاننا ہو تو اس علم کو باقاعدہ استاذ سے سیکھا جاتا ہے جس میں زندگی کے کئی سال گزر جاتے ہیں۔ اس ساری احتیاطوں کے باوجود بھی روایات کی حیثیت ظنی ہی رہے گی۔

میں نے ایک جدول اس تحریر کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ اس کو دیکھیے ۔ یہ علم حدیث پڑھاتے ہوئے ہمارے استاذ نے ہمیں عنایت کیا تھا۔ صرف خبر واحد کی قسمیں دیکھیں تو چکر آجاتے ہیں کہ ایک خبر کو سمجھنے کا طریقہ کار کس قدر مشکل ہے۔

اس جدول کو دیکھیے پھر غور کیجئے کہ آپ کے گھروں میں جو زاکرین تقریریں کرتے ہیں یا وہ لوگ جو چار اردو کی کتابیں پڑھ کر احادیث مجمع میں سناتے ہیں، ان کا لیول کیا ہوگا؟

برصغیر میں عوام کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ جو سیرت کی کتابیں اردو میں میسر ہیں ان کو پڑھ کر دوسروں کو سنانے منبر پر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اوٹ پٹانگ فرضی باتیں اپنے دماغ سے اخذ کرکے لوگوں کو سناتے ہیں۔ میں نے ایک خاتون زاکرہ کی مجلس سنی جو امام کے پیشاب کے پاک ہونے کا ذکر فرما رہی تھیں، یہ کلیہ انہوں نے کسی روایت سے اخذ کیا تھا۔

خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

میرا ادب سے سوال ہے کہ ایسی محافل منعقد کرکے سالوں سے ہم کونسی دین کی خدمت انجام دے رہے ہیں ؟ کیا یہ دین کا مذاق اڑانے کے مترادف نہیں ہے؟

ایک اور مخلوق آپ کو محافل میں نظر آئے گی جو مجلس تو نہیں پڑھتی مگر ہر بات پر کوئی نہ کوئی روایت سنائے گی یا پھر کوئی بشارتی خواب بتاتی نظر آئے گی ۔ قبضہ مافیہ کے ایک رکن کے بارے میں مجھے ایک دوست نے بتایا کہ وہ زمین پر قبضے کے لیے “علم” اور “بشارتی خواب” کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔

رسول اکرم یا ائمہ سے منسوب کوئی بھی خواب چاہے کتنی ہی معتبر ہستی بیان کرے، قابل قبول نہیں ہے۔ یہ اس شخص کے لیے حجت ہوسکتا ہے مگر باقی دنیا کے لیے اس کی حیثیت ایک معمولی خواب سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ ائمہ سے منسوب ایسے سینکڑوں اقوال ہیں جن کی تحقیق کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ اصل میں کسی کا خواب تھے۔ لکھنے والے نے کتاب میں لکھ دیا، پڑھنے والا بنا تحقیق دنیا کو سناتا پھر رہا ہے۔ سن کر بس یہی خیال آتا ہے کہ

یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

اللہ ہماری قوم کو عقل و شعور عنایت فرمائے۔

ابو جون رضا

6

4 thoughts on “علم حدیث اور ہمارے زاکرین”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *