پیارے ڈاکٹر ذاکر نائک کے نام ، ایک پیغام

آپ ماشااللہ سے ہمارے پیارے اسلامی بھائیوں کی نظر میں ایک عظیم اسکالر ہیں۔ میں آپ کو پاکستان میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ کمپیوٹر سے زیادہ تیزی سے ریفرینسز پیش کرتے ہیں۔ ہزاروں لوگ آپ نے مسلمان کیے۔ اللہ آپ پر کرم و رحم فرمائے اور توفیقات میں اضافہ فرمائے ۔

میں اور میری فیملی کل رات بہت شوق سے آپ کو سننے بیٹھی۔

مجھے یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی کہ آپ سوالات کو پسند نہیں کرتے حالانکہ آپ کا تصور ہمارے ذہنوں میں یہ بٹھایا جاتا ہے کہ آپ سے کچھ بھی پوچھا جائے، آپ خوشدلی سے جواب دیتے ہیں۔

دینی معاملات میں ایک بنیادی اور اہم چیز جو مکتب اہلبیت سے میں نے سیکھی ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ

“سب سے بڑی نیکی وہ ہے جس پر آپ “غیر” سے مدح کے طالب نہ ہوں”

یعنی آپ اگر خدا کا نام لیکر نیک کام کرنے کھڑے ہوئے ہیں تو پھر ساری تعریفیں ، ساری مدح اسی سے سننے کے طالب ہوں ، انسانوں سے توقع نہ رکھیں۔

آپ کو کوئی اپنے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ وکیل ہے، آپ فورا اس کو بتاتے ہیں کہ میں بھی وکیل ہوں، میں اسلام کا وکیل ہوں یعنی دوسرے لفظوں میں اس کو کہتے ہیں تم کہاں کے وکیل ہو، جو میں ہوں۔ کوئی کہتا ہے میں اسٹوڈنٹ ہوں تو آپ بتاتے ہیں کہ میں اسلام کا اسٹوڈنٹ ہوں ۔ کوئی کہتا ہے میں میڈیکل سے وابستہ ہوں تو آپ کہتے ہیں کہ میں بھی ڈاکٹر ہوں وغیرہ۔

ہمارے پاکستان میں اخلاص کی روشن مثال جناب مرحوم ایدھی صاحب اور ادیب الحسن رضوی ہیں جو نیک نامی کے لیے انسانیت کے کام نہیں آئے۔ ان لوگوں نے خالص ہوکر اللہ کی مخلوق کی خدمت کی ہے۔

“شاید یہ دوسری دنیا میں جنت کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھیں گے”

ایک صاحب مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے ، مسجد میں دو آدمی ان کے پاس ہی بیٹھے تھے۔ ایک آدمی نے دوسرے آدمی سے کہا کہ یہ صاحب جو نماز پڑھ رہے ہیں، بڑے نمازی اور پرہیزگار ہیں۔ ان صاحب نے نماز توڑی اور ان لوگوں کی طرف رخ کرکے بآواز بلند کہا “بھائی جان میں حاجی بھی ہوں”

ڈاکٹر صاحب ! میرا درد دل یہ ہے کہ میرے ملک میں ستر سال سے مذہب پڑھایا گیا ہے۔ یہاں بریلوی ، شیعہ، دیوبندی ،اہل حدیث جیسے متنوع فکر رکھنے والے لوگ رہتے ہیں جو سب ایک نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں، لیکن ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔ آپ نے حال ہی میں ایک شیعہ مولانا کی گرجدار آواز میں تقریر سنی ہوگی جو آپ کے سامنے میڈیا سے کہہ رہے تھے کہ “ڈاکٹر زاکر نائیک کوئی دودھ کے دھلے نہیں ہیں” جب یہ تاریخی حقائق کو توڑیں مڑوڑیں گے تو جادہ حق سے ہٹ جائیں گے۔

اس بیچارے ملا اور اس کے حواری شاید اس بیان سے خوش ہوں مگر میں جانتا ہوں کہ اس ملک میں ایک مخصوص ٹولہ ہزار سال پہلے کے واقعات سے لوگوں کو جوڑ کر اپنے گھر کا چولہا جلاتا ہے۔ دودھ کے دھلے تو یہ بھی نہیں ہیں، مگر کبھی پسند نہیں کریں گے کہ اگر یہ انڈیا جائیں تو ان کو آپ کے مکتب فکر کے خوشہ چینوں کے آگے ڈال کر ان کی کھال ادھڑتی ہوئی دیکھی جائے۔ یہ سب نفرتوں کے کاروبار کے بیوپاری ہیں جن کے زریعے ان کے گھروں کا چولہا جلتا ہے۔

اسی ملک میں غیر مسلم کو مار کر جلایا گیا ۔ پھر نام نہاد مسلمانوں نے اس کی لاش کے ساتھ سیلفی لی ہیں۔ یہاں اگر شبہ ہو جائے کہ کوئی ختم نبوت کا منکر ہے تو اس ختم نبوت کے منکر کی لاش قبر سے نکال کر اس کی ہڈیاں روڈ پر پھینک دی جاتی ہیں۔

آپ اس نفرتوں کے دیس میں کونسا اسلام پڑھانے آئے ہیں ؟

کل ایک صاحب نے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں۔ آپ نے کہا کہ میں بھی سوشل میڈیا انفلوئنسر ہوں۔ میں پیسے نہیں لیتا حالانکہ میں بہت کما سکتا ہوں۔ کیونکہ یوٹیوب کونٹینٹ پر اگر کوئی لڑکی اشتہار میں نظر آئے تو اس کا گناہ مجھے ہوگا۔ اس لحاظ سے سوشل میڈیا کی کمائی حرام ہے۔ پھر آپ نے بتایا کہ آپ واحد آدمی ہیں جس کا چینل ٹک ٹاک نے بین کردیا۔

آپ کو شاید اپنے ملک سے نکالے جانے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر بین ہوجانے کا دکھ ہوتا ہوگا، مگر آپ بھی تو سوال کرنے والے پر “اوپر” سے آتے ہیں۔

کل ایک لڑکی پلوشہ نے آپ سے سوال کیا۔ وہ لڑکی جس ماحول میں رہتی ہے، وہاں لڑکیوں کا پڑھنا لکھنا باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ وہ لڑکی پھر بھی بچیوں کو تعلیم دینے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ آپ سے بڑی متاثر تھی۔ اس کا سوال صرف یہ تھا کہ میں جس معاشرے میں رہتی ہوں وہاں تو ہر طرف مذہبی پائے جاتے ہیں، اللہ رسول کا نام لینا، لمبی داڑھیاں رکھنا، ہاتھ میں تسبیح رکھنا مگر اس کے باوجود مساجد اور مدرسوں میں بچوں کے ساتھ بلاتکار ہوتا رہتا ہے۔ آپ اس پر روشنی ڈالیے

آپ نے اس سادہ سوال کا جواب دینے کے بجائے لڑکی سے بدتمیزی کی، اس کے سوال کو غلط کہا اور معافی کا مطالبہ کیا۔ مزید آپ نے یہ کہا کہ اس سوال میں ”تضاد“ پایا جاتا ہے۔ ”تضاد“ کی نشاندہی آپ نے یوں کی کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ معاشرہ اسلامی ہو اور اس میں ”پیڈافائل“ بھی موجود ہوں۔ چونکہ وہاں ”پیڈافیلیا“ کی بات ہو رہی تھی، اس لیے گفتگو اسی تک محدود رہی۔ تاہم آپ کی بات کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ معاشرہ اسلامی ہو اور اس میں جرائم بھی پائے جائیں۔

دوسرا آپ نے اس سے کہا کہ اگر یہ بات آپ نے خدا کے سامنے کی تو آپ پھنس جائیں گی۔

ایک بات تو میں پہلے قران سے پیش کردوں ۔ سورہ البقرہ آیت 30 میں ارشاد ہے

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡۤا اَتَجۡعَلُ فِیۡہَا مَنۡ یُّفۡسِدُ فِیۡہَا وَ یَسۡفِکُ الدِّمَآءَ ۚ وَ نَحۡنُ نُسَبِّحُ بِحَمۡدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ ؕ قَالَ اِنِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۳۰﴾

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا؟ جب کہ ہم تیری ثناء کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا: میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔

اللہ نے ایک بات فرشتوں کو بتائی ۔ فرشتوں نے بنا سوچے، اپنی سمجھ کے مطابق اعتراض جڑ دیا، یا دوسرے لفظوں میں کہیں تو سوال پیش کردیا ۔ فرشتوں کی نظر میں مخلوق کی خلقت کی غرض و غایت عبادت تھی۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے

مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ

( سورہ الذاریات آیت 56)

اور میں نے جن اور انسان اسی لئے خلق کیے کہ میری عبادت کریں۔

فرشتوں کا سوال صرف یہ تھا کہ اگر عبادت ہی کروانا ہے تو ہم بے تکان تسبیح کرتے ہیں۔ اس مخلوق کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

یہاں خدا نے سوال پر فرشتوں کو ڈپٹ نہیں دیا یا یہ نہیں کہا کہ تم لوگ معافی مانگو، سوال ہی غلط ہے۔ صرف اتنا کہا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔

آپ تو پلوشہ کے سوال میں ہی تضاد نکالنے کھڑے ہوگئے۔ اس کو عوام کے سامنے ذلیل کرکے رکھ دیا۔

میں یہاں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ”تضاد“ پلوشہ کی باتوں میں نہیں، بلکہ آپ کی باتوں میں پایا جاتا ہے۔ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جہاں جرائم ہوں گے وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہو سکتا۔ اگر آپ کی بات صحیح ہے تو مجھے یہ بتائیے کہ کیا شریعت اسلامی معاشروں کے لیے نہیں اتری تھی؟

کیا اس شریعت میں سزائیں شامل نہیں ہیں؟

کیا سزاوں کے بغیر شریعت مکمل ہو جاتی ہے؟

سزائیں جرائم کو پہلے سے تصور کر کے یا جرائم کے بعد متعین کی جاتی ہیں۔ اگر وہ اسلامی معاشروں پر لاگو نہیں ہوتیں، کیونکہ اسلامی معاشروں میں جرائم نہیں ہوتے تو پھر شریعت میں سزاؤں کو متعین کرنے کی وجہ کیا ہے؟

شریعت میں موجود سزاؤں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلامی معاشروں میں جرائم کا تصور ہی نہیں بلکہ جرائم بھی موجود ہوتے ہیں، اور ان ہی جرائم کی پاداش میں شریعت نافذ کی جاتی ہے۔

میں ادب سے عرض کرتا ہوں کہ آپ کی بات سے یوں لگتا ہے کہ اسلامی معاشرے کا اسلامی شریعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یعنی اسلامی شریعت (سزائیں) اسلامی معاشرے سے خارج ہے۔

تو کیا اسلامی شریعت کا اطلاق کسی غیر اسلامی معاشرے پر مقصود تھا؟

کچھ احباب یہ نکتہ تراش لاتے ہیں کہ اسلامی معاشرے اور مسلم معاشرے میں فرق ہوتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ اسلامی معاشرے پر اسلامی شریعت کا اطلاق نہیں ہوتا، بلکہ اسلامی شریعت کا اطلاق مسلم معاشرے پر ہوتا ہے۔ لیکن اس عمل سے جو ”تضاد“ پیدا ہوتا ہے، اس کی تحلیل ممکن ہی نہیں ہے۔

فرض کریں کہ ایک ایسا اسلامی معاشرہ قائم ہو چکا ہے جس میں کوئی جرم سرزد نہیں ہوتا، لیکن جونہی جرم سرزد ہوتا ہے ، وہ اسلامی معاشرہ اسلامی نہیں رہتا بلکہ مسلم معاشرے میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور اس کے باوجود اس “مسلم معاشرے” پر اسلامی شریعت کا اطلاق ہوتا ہے، لیکن “اسلامی معاشرے” پر اسلامی شریعت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یعنی اسلامی شریعت اور اسلامی معاشرہ ایک جگہ نہیں ٹھہر سکتے۔ ظاہر ہے یہ ایک مضحکہ خیز صورتحال ہے۔


میں آپ سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ”ریاست مدینہ“ اسلامی معاشرہ تھا یا غیر اسلامی؟

کیونکہ ریاست مدینہ میں جرائم کا ارتکاب ہوتا تھا، اور انہی جرائم سے نبرد آزما ہونے کے لیے قرآن کی آیات نازل ہوتی تھیں۔

آپ چونکہ یہ کہتے ہیں کہ جہاں جُرم ہو گا وہ اسلامی معاشرہ نہیں ہو گا، تو کیا ”ریاست مدینہ“ ایک غیر اسلامی معاشرہ تھا جس پر اسلامی شریعت نازل ہوئی تھی؟

کیونکہ اگر اسلامی شریعت اسلامی معاشرے پر قابلِ اطلاق نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ پھر یہ شریعت غیر اسلامی معاشرے کے لیے نازل ہوئی ہو گی۔ لیکن

جیسے ہمارے ایک پیارے یوٹیوبر مبلغ کہتے ہیں

“بابا تو کوئی شے ہی نہیں ہے”

ویسے ہی غیر اسلامی معاشرے پر اسلامی شریعت کے اطلاق کا تو “کوئی مطلب ہی نہیں ہے”

لہذا آپ کے پاس یہ تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ اسلامی شریعت اسلامی معاشرے کے لیے ہے۔ آپ نے اسلامی شریعت میں سے سزاؤں کو نکال کر کوئی الگ اسلام تشکیل دے دیا ہے، جبکہ اسلامی شریعت اپنی ”کلیت“ میں قابلِ اطلاق ہے نہ کہ جب چاہے اسے التوا میں بھیج دیں، اور جب چاہا لاگو کر دیں۔

ایک سے زیادہ شادیوں کے سوال پر آپ عورتوں کی تضحیک پر اتر آتے ہیں۔ آپ کے خیال میں مردوں کی تعداد عورتوں سے کم رہتی ہے۔ اس لیے مرد یہ احسان کرتے ہیں کہ وہ دو یا تین یا چار عورتوں سے نکاح کرلیتے ہیں۔ اگر مرد یہ “نیک جنسی عمل” انجام نہ دیں تو عورتیں “پبلک پراپرٹی” بن جائیں

دو ہزار تئیس کے گلوبل انڈیکس کے مطابق مردوں کی تعداد 50.5 فیصد اور عورتوں کی تعداد 49.5 فیصد ہے۔ یعنی مرد حضرات بہت تھوڑی تعداد میں عورتوں سے زیادہ ہیں۔ اگر سچویشن یہ بنتی ہے تو آپ کا اسلام مردوں کو کیا مشورہ دے گا؟

فرض کریں کہ دس لاکھ مرد ہیں اور پانچ لاکھ عورتیں ہیں، پانچ لاکھ مردوں کو عورتیں مل گئیں ، باقی پانچ لاکھ کو آپ کیا مشورہ دیں گے؟

خود کو خصی کرڈالیں
عورتوں پر حملے کریں
یا پبلک پراپرٹی بن جائیں

آپ لامحالہ یہ کہیں گے کہ “انتظار فرج” کیا جائے، روزے رکھیں

یہ مشورہ آپ عورتوں کو بھی دے سکتے ہیں کہ وہ نفس پر قابو رکھ کر تھوڑا انتظار کریں ، اچھا رشتہ مل جائے گا ۔ ان کو “بازاری عورت” بن جانے کا مشورہ دینے والے آپ کون ہوتے ہیں؟

دوسری طرف اسی اسلام کے پیغامبر حضرات “متعہ” اور “مسیار” پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ ان کو کیا کہیں گے؟

میں پھر پوچھتا ہوں،

ڈاکٹر صاحب! آپ یہاں کونسا اسلام پڑھانے آئے ہیں؟

شاید آپ یہاں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے آئے ہیں۔ لیکن یقین کریں یہ ڈگری آپ کے قد کے آگے بہت چھوٹی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ جانے سے پہلے ہمارے مبلغین اور علماء کو اسلام پڑھا جائیں ۔ امن والے اسلام کی ان کو زیادہ ضرورت ہے، عوام تو پہلے ہی ان کے آگے بلی کا بکرا بنی ہوئی ہے۔

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿ سورہ النحل آیت ۱۲۵﴾

حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔

اللہ آپ کو سلامت رکھے ، ہدایت دے اور آپ کے طفیل ہم سب کو بھی ہدایت کے رستے پر گامزن فرمائے

ابو جون رضا

6

5 thoughts on “پیارے ڈاکٹر ذاکر نائک کے نام ، ایک پیغام”

  1. Syed Adil akhtar

    ماشاءاللہ جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی۔ کاش وہ خود یا ان کے مداح اس تحریر کو پڑھتے اور کچھ نصیحت لیتے۔

  2. سید محمد ذیشان

    شاید کہ تیرے دل میں اُتر جائے میری بات۔۔۔۔
    سلامت رہیں ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *