میرا مذہبی، علمی سفر

میں ایک کٹر شیعہ گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ نجیب الطرفین سادات گھرانہ جو ان معاملات پر فخر کرتا ہے ، وہ میرے اردگرد رہا۔

میرے والد سائنس کے ٹیچر تھے۔ وفات کے وقت وہ اسکول کے پرنسپل تھے۔ والدہ ٹیچر رہیں۔ میرے نانا سندھ مدرستہ الاسلام میں جہاں سے قائد اعظم نے تعلیم حاصل کی، وہاں پڑھاتے رہے۔ اس وجہ سے نالج شئیرنگ کے جراثیم مجھ میں موجود رہے۔ زمانہ طالب علمی میں کوچنگ سینٹر میں پڑھاتا رہا ، آج کل بینکرز کو لیکچرز دیتا ہوں۔

مذہبی کتابوں کا شوق والد سے مجھ تک آیا اس کو والدہ نے پروان چڑھایا۔ میرے والد کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔ والد اپنا علمی تراث کتابوں کی شکل میں چھوڑ کرگئے جس میں اضافہ کے جذبے کو والدہ نے مہمیز کیا۔(پروردگار دونوں استاذہ کو غریق رحمت کرے)

کسی خاص کتاب کو پڑھنے کی طرف توجہ دلانا یا کسی کتاب کو پڑھنے سے منع کرنا یہ کبھی والدہ کی سرشت میں شامل نہیں رہا۔

اس وجہ سے ہر طرح کی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ خاص کر گھر میں موجود مذہبی کتابیں چاٹ لی تھیں ۔ مجھے بہت بعد میں پتا چلا کہ مذہبی متعصب ذہن نہ صرف اپنے خیالات کے مخالف کتابیں پڑھنے سے الجھتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی منع کرتا ہے۔

جب میری وائف نے کتاب لکھی تو مجھے احساس ہوا کہ متعصب ذہن کیا بلا ہے۔ اس کتاب کی مخالفت جس طرح سے کی گئی اور جس طرح سے اس کو میرے اقرباء نے اٹھا کر پھینکا، وہ میرے لیے بہت حیرت اور تکلیف کا باعث تھا۔ جتنے روشن خیال لوگ تھے ، ایک جھٹکے میں عریاں ہوکر سامنے آگئے تھے۔ اسی لیے جب میں نے کتاب لکھی تو خاص لوگوں کو بانٹی۔ میں جانتا ہوں کہ اگر میری کتاب میں لکھے ہر لفظ پر خدائی مہر ثبت ہوتی تب بھی متعصب انسان اس کو پڑھنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کرے گا۔

کمال حیرت ہے کہ دوسروں کو اپنے مسلک کی کتابیں پڑھنے کی دعوت دینے والے اندر سے کتنے تنگ نظر ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے عقائد ریت کی دیوار ہیں جو ایک چھوٹی سی کتاب زمیں بوس کردیتی ہے۔

میں اسکول میں آٹھویں جماعت سے ہی مناظرے کرنے لگا تھا، جن میں سنیوں کو ہرانا ایک قابل فخر بات سمجھی جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک اسکول ٹیچر جو خود بھی شیعہ تھیں، انہوں نے والدہ کو لیڑ لکھا کہ گھر میں اس کی مذہبی کتابوں پر پابندی لگائی جائے ، یہ اسکول میں مناظرے کرتا ہے۔

یہ روش بعد میں بھی جاری رہی۔ محلے میں ، دوستوں میں، جاب پر ، ہرجگہ میرے اندر کا مناظر انسان ذرا سی مذہبی گفتگو پر بیدار ہوجاتا تھا۔

اتفاق سے ہمارا معاشرہ ایسا ہے کہ خود کو مفتی مولانا اور اپنے مسلک کو صحیح سمجھنے والا قدم قدم پر ملتا ہے، اس لیے مناظرے کے مواقع ہر دور میں وافر مقدار میں ملتے رہے ۔

میرا پیارا دوست مدثر جو حد سے زیادہ مذہبی تھا، دس سال تک مذہبی تنظیموں کے لیے کام کرتا رہا اور ایک معروف ملا کے گارڈ کے فرائض بھی اس نے انجام دیے ، اس نے مجھے کالج لائف میں انقلاب ایران کے حوالے سے بہت سی باتوں سے آگاہ کیا۔ اس کو ذہنی طور پر مذہبی تنظیموں نے یرغمال بنایا اور پھر ایک بم بلاسٹ میں وہ راہی عدم ہوا۔ اللہ اس کو غریق رحمت کرے ۔

ایک زمانے میں آیت اللہ دستغیب سے بہت عقیدت رہی۔ ان کی کتاب ایمان نے میرے دل کی دنیا پلٹ دی تھی۔ وہ اخلاق کے استاذ تھے۔ ان کی کوئی کتاب شاید ہی ایسی ہو جو میں نے نہ پڑھی ہو۔ ان کی کتابوں کے مطالعے کے دوران میں حد سے زیادہ نماز اور اذکار سے رغبت رکھنے والا بن گیا تھا۔ نماز روزہ پہلے بھی میرا کوئی قضاء نہیں رہا مگر دستغیب صاحب کی کتابوں کے بعد باطنی طہارت پر ہی فوکس رہنے لگا ۔

کچھ عرصے بعد تصوف کی ایک مایہ ناز شخصیت کو پڑھنے کا موقع ملا جو پاکستانی تھے۔ ان کی تحریروں کی وجہ سے تصوف کی طرف رجوع کیا، وہاں یہ سیکھنے کو ملا کہ ہر انسان چاہے اچھا ہو یا برا، بہرحال اللہ کی مخلوق ہے، ہر کسی کے لیے دل میں پیار محبت ہونی چاہیے۔ کسی سے بغض نہ رکھیں، سب کی بھلائی کے خواہاں رہیے۔ یہ چیز مناظرانہ ذہن رکھنے والوں کے لیے قابل قبول نہ تھی وہ کہتے تھے کہ اہل بیت کے دشمنوں سے بغض رکھیے اور خاص کر خلفاء ثلاثہ سے تو خالص نفرت دل میں رکھیے۔ یہی ایمان کی علامت ہے۔

اسی زمانے میں میرے مرحوم دوست فیصل لطیف نے مجھے نبی کریم جو معلم انسانیت ہیں، ان سے متعارف کروایا ۔ نبی کریم کو اہل تشیع میں حضرت علی کی مدح کرنے والے شخص سے زیادہ حیثیت حاصل نہیں ہے، بلکہ ان کے عرفانی علماء کے مطابق مقام نورانیت میں دونوں شخصیات یکجا ہیں۔

نبی کریم کا نام میں نے بچپن سے سنا تھا۔ وہ آخری نبی ہیں۔ ان سے عقیدت تھی مگر جیسی عقیدت حضرت علی اور حضرت عباس سے تھی، اس کا عشر عشیر بھی نبی کریم سے نہ تھی۔ یہ وہی مذہبی ذہن ہے جو کم و بیش ہر دوسرے شیعہ کا ہمیں نظر آتا ہے۔ میں اپنے مرحوم دوست فیصل لطیف کا شکر گزار ہوں جن کی بدولت میں رسول اکرم کی شخصیت سے روشناس ہوا۔

یہ سلسلہ چلتا رہتا اگر نوکری کی تبدیلی کی وجہ سے میری ملاقات سید جواد رضوی سے نہ ہوتی۔ یہ علماء کے گھرانے سے تعلق رکھنے والی روشن فکر شخصیت ہے جس کے لیے آیت اللہ بہاالدینی صاحب کے الفاظ سند ہیں کہ اس جوان جیسا علم ہمارے بڑے بڑے علماء کے پاس نہیں ہے۔ خرم زکی مرحوم جو خود مناظروں کے چیمپین تھے ، وہ سید جواد رضوی کو استاد کہا کرتے تھے۔ رجال پر ان کی مہارت کے مفتی شعیب مذنی جیسے ماہر رجال بھی معترف رہے ہیں۔

جواد رضوی نے مجھے تصویر کا دوسرا رخ دکھایا ۔ یہ سوال کرتے تھے ۔ میں حتی المقدور جواب دینے کی کوشش کرتا تھا مگر اکثر شدید بے بسی محسوس کرتا تھا۔ میرا مناظر باہر نکل آتا تھا۔ جو لڑنا اور جیتنا چاہتا تھا۔

کسی مناظر یا خود کو مفتی اعظم پاکستان سمجھنے والے انسان کو یہ باور کرانا کہ دنیا میں ایک سے ایک بڑا نابغہ پڑا ہے ، تم کس کھیت کی مولی ہو، بڑا مشکل کام ہے۔

علمی طور پر کسی اپنے جیسے انسان کو بڑا ماننا اصل میں نفس کو جوتے سے مسل دینے کے مترادف ہے۔ آپ یہ تسلیم کریں کہ سامنے والا شخص آپ سے زیادہ نالج رکھتا ہے، یا علم کے میدان میں بڑھ گیا ہے، نوے فیصد سے زیادہ لوگوں کو بالکل قبول نہیں ہوگا۔ میں نے جواد رضوی کے سامنے سر تسلیم خم کردیا اور مناظر کو پھانسی پر چڑھا دیا۔ میں اپنے استاذ کا احسان مند ہوں جنہوں نے مجھے غلو کی دلدل سے باہر کھینچ نکالا اور میرے ذہن کی آبیاری کی۔

انبیاء کو بھی یہ مشکلات درپیش آتی تھیں ، ان کے معاشرے کے لوگ اچانک دیکھتے تھے کہ ان کے درمیان روز کا اٹھنے بیٹھنے والا شخص ان کو اپنی اطاعت کا حکم دے رہا یے اور کہہ رہا ہے کہ میری بات مانو گے تو فلاح پاجاؤ گے۔ وہ دشمن بن جاتے تھے۔ ابوجہل نے اپنے سر کو کاٹنے والے صحابی سے کہا کہ میرا گلا نیچے سے کاٹا جائے تاکہ جب سروں کے درمیان رکھا جائے تو سب سے بڑا نظر آئے۔

میں نے محسوس کیا کہ اگر علم سیکھنا ہے تو مناظرانہ ذہنیت اور بڑے پن کے خناس کو باہر پھینکنا ہوگا۔ ادب سے جھک کرسیکھنا ہوگا اور اگر دلیل میرے آباؤ اجداد یا مسلک کے خلاف نظر آتی ہے تو اس کو کشادہ دلی سے قبول کرنا ہوگا۔

بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ بہت تکلیف دہ کام تھا۔ اگر اللہ مدد نہ کرتا تو میں آج بھی مسلکی مباحث میں گرفتار رہتا۔ سارے مقدسات ٹوٹ گئے، سارے پرانے خیالات دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایک نیا شخص نمودار ہوا جو ہر چیز کے دوسرے اینگل کو دیکھنے کی اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔

دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو علمی تنقید سے مبرا ہو۔ نبی کریم سے بھی لوگ پوچھا کرتے تھے کہ آپ وحی الہی سے فرما رہے ہیں یا ذاتی رائے پیش کررہے ہیں۔ اگر آپ کا جواب یہ ہوتا کہ میری ذاتی رائے ہے تو لوگ اطمینان سے اس کی مخالف رائے کو پیش کردیتے تھے اور نبی کریم قبول بھی کرلیتے تھے۔

ایک مذہبی اسکالر سے کسی نے کہا کہ مجھے آپ کی ہر بات سمجھ آتی ہے اور میں ہر بات سے اتفاق کرتا ہوں، اسکالر نے فرمایا کہ بہتر ہے کہ آپ کسی دماغ کے ڈاکٹر کو دکھائیے۔ کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جس کی ہنڈرڈ پرسنٹ رائے سے دوسرا انسان متفق ہو، اگر کوئی ایسا ہے تو وہ تقلید محض کی تعلیم دیتا یے اور مرید بناتا یے۔ ایسے شخص سے دوری اختیار کرنا بہتر ہے۔

جب عقیدتوں کے بت ٹوٹ جاتے ہیں، پھر جاکر علمی چاشنی انسان کو حاصل ہوتی ہے۔

میرا علمی سفر جاری تھا کہ اچانک سے میں نے فلسفہ کی طرف توجہ کی۔ مجھے پسند آیا تو ماسٹرز میں داخلہ لے لیا۔

فلسفہ پڑھنے کے بعد مجھ پر یہ بھیانک حقیقت عیاں ہوئی کہ میں آج تک جو پڑھتا رہا وہ تو مابعد الطبیعاتی باتیں ہیں، حقیقت اور مشاہدے کی دنیا میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

مجھ سے پوچھا گیا کہ رسول کے سچا ہونے کی کیا دلیل ہے؟ میں کچھ تاریخی حقائق اور قران کے علاؤہ کچھ نہیں پیش کرسکا۔

فلسفہ نے سب کچھ اٹھا کر پٹخ دیا۔ مجھے آسمان سے زمین پر لے آیا۔ پانچ سال فلسفہ پڑھتے ہوئے گزرے۔ ماسٹرز ختم ہوگیا مگر ذہنی پرواز کو جس طرح سے فلسفہ نے بوسٹ کیا وہ مزا کہیں اور نہیں مل سکا۔

اس زمانے میں پاکستان کی ایک مشہور شخصیت عمران صاحب سے میں نے فلسفہ پڑھا۔ ان کی فلسفہ پر علمیت کے سامنے میری حیثیت آج بھی طفل مکتب کی ہے۔ وہ غضیلے آدمی ہیں لیکن دل کے بہت نفیس انسان ہیں۔ اقبال کو میں نے ان سے ہی پڑھا۔ میرا خیال ہے کہ اقبال کو ان سے بڑھ کر علمی طور جانے والا شخص پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ عمران صاحب فلسفہ میں ڈاکٹریٹ ہیں اور ان کی کئی کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ میں ان سے ملاقات کو اپنی خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔ انہوں نے مجھے علم کا ایک نیا زاویہ دیا، تنقیدی شعور کو ابھارا جو آج میرے لیے خزانے کی طرح ہے۔

علم کا یہ سفر مجھے کوووڈ کے زمانے میں مدرسہ راشدی کی طرف لے گیا۔ وہاں سے میں نے سرٹیفیکیٹ کورس کیے۔ ول ڈیورانٹ کو عمار خان ناصر سے پڑھا۔ مکتب فراہی کے خوشہ چیں حضرات سے میں پہلے سے متعارف تھا۔ عمار صاحب ان میں ایک بلند پایہ شخصیت ہیں اور جاوید غامدی کے متوقعہ جانشین بھی ہیں۔ ان کی شاگردی میرے لیے باعث فخر ہے۔

میں نے آن لائن بہت پڑھا۔ حدیث کے علم کو اہل حدیث حضرات سے سیکھا، آج بھی سیکھ رہا ہوں ۔ دیوبند کے مدرسے میں بیٹھ کر دینی تعلیم حاصل کی۔ سر کو ادب سے جھکائے رکھا اور کہیں پر بھی یہ چھاپ نہیں لگنے دی کہ میں کوئی الگ مخلوق ہوں اور سامنے والا میرے مسلک کا نہیں ہے، اس وجہ سے نفرت کے لائق ہے۔ میرا مقصد بس علم کشید کرنا تھا۔

مجھے لکھنے کا شوق ہے۔ اس میدان میں کوشش کی تو اللہ کے کرم سے اب تک میرے کم و بیش سو کے قریب مضامین اخبارات اور آن لائن ویب سائٹس پر شائع ہوچکے ہیں۔ جتنی پذیرائی مجھے غیروں سے ملی، اپنوں سے اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ملا۔

ہے غلامی آل نبی کا اثر
کہ مجھ کو استاذ کہتے ہیں اہل نظر

میرا علمی سفر آج بھی جاری ہے۔ میں استاد کے بجائے طالب علم کہلانا پسند کرتا ہوں۔ اہل علم کی قربت پسند کرتا ہوں، شاید اسی وجہ سے ہر وقت علم دوست حضرات میں گھرا رہتا ہوں۔

ٹیچرز ڈے پر اپنے تمام استاذہ کرام کو تہہ دل سے شکریہ اور دعائیں پیش کرتا ہوں۔ میں آج جو بھی کچھ ہوں، اللہ کی مہربانی اور اپنے استاذہ کرام کی بدولت ہوں۔

میرے لیے میرے استاذ کے یہ الفاظ باعث فخر ہیں،

“اگر شاگردوں کا کوئی عالمی دن ہوتا تو ہم آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے”

یارب چمنِ نظم کو گلزارِ اِرم کر
اے ابرِ کرم خشک زراعت پہ کرم کر

تو فیض کا مبدا ہے توجہ کوئی دَم کر
گمنام کو اعجاز بیانوں میں رقم کر

جب تک یہ چمک مہر کے پر تو سے نہ جائے
اقلیم سخن میرے قلم رَو سے نہ جائے

ابو جون رضا

7

5 thoughts on “میرا مذہبی، علمی سفر”

  1. مکمل تحریر پڑھ کر دل میں از حد خوشی محسوس کی کہ معاشرے میں اب بھی علمی بردباری اور سوچ کی وسعت کو عملی اہمیت دینے والے موجود ہیں۔ سیکھنے کا موقع ملا۔ شاد رہیں۔۔۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *