سعید بک ڈپو کا تنازع سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس حوالے سے کافی نامی گرامی صحافی اپنی رائے پیش کرچکے ہیں۔
اصل مسئلہ خریدی ہوئی چیز کو واپس لینے کا ہے۔ ایمزون پندرہ بیس دن تک بھی استعمال شدہ چیز واپس لے لیتا یے اور کوئی سوال نہیں پوچھتا۔ اس کی سیل جتنی ہے اتنا تو ایک ملک کا سالانہ بجٹ ہوتا ہے۔
خریدی ہوئی چیز کا واپس لینی مستحب امور میں داخل ہے۔ میں اکثر بینکرز کو ٹریننگ میں اقالہ کے حوالے سے معلومات دیتا ہوں۔ خریدی ہوئی چیز کو واپس لینا “اقالہ” کہلاتا ہے۔
فرض کریں ایک کتاب کی دکان پر کوئی شخص کتاب خرید کر جاتا ہے اور پندرہ منٹ میں واپس آتا ہے کہ یہ کتاب واپس لے لیں ، میں نے غلطی سے خرید لی تھی۔ اگر کتاب اتنی ضخیم ہے کہ اس کی پندرہ منٹ میں کاپی نہیں بن سکتی تو خندہ پیشانی سے کتاب لیکر پیسے واپس کردینے چاہییں۔ یہ معاملہ اقالہ کہلائے گا۔
یہ بات میں پاکستانی معاشرے کے تناظر میں کہہ رہا ہوں۔ اگر معاشرہ سچے لوگوں کا ہے تو ایک دن بعد بھی کتاب واپس ہوسکتی ہے۔
لوگ معاملات میں اسلامی طریقہ کار کے نام پر منہ بناتے ہیں۔ میں نے صرف یہ عرض کردیتا ہوں کہ رسول اکرم کی اس زمن میں کیا تاکید تھی۔
اگر ایک فریق ’’اقالہ‘‘کا مطالبہ کرے تو ’’بیع‘‘ واپس کرنا مستحب اور قابل اجر ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا بَیْعَتَہُ،أَقَالَہُ اللّٰہُ عَثْرَتَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘ ’’
جو مسلمان کی ’’بیع‘‘اس کے مطالبے پرواپس کر دے، اللہ قیامت کے دن اس کی لغزشیں معاف کر دے گا۔‘‘
(سنن أبي داود، البیوع،باب في فضل الإقالۃ،حدیث: 3460، وسنن ابن ماجہ، التجارات، باب الإقالۃ، حدیث: 2199)
[صحیح)
اہل تشیع میں اقالہ کے حوالے سے سے ایک روایت موجود ہے۔
رسول اکرم سے حکیم بن حزام نے تجارت کی اجازت مانگی۔
آپ نے اس وقت تک اجازت نہیں دی جب تک نادم کے اقالہ ( یعنی جب بھی کوئی شخص مال خریدے اور بعد میں پشیمان ہو تو مال اس سے واپس لے لے)، تنگ دست کو مہلت دینے اور اپنے حق سے زیادہ نہ لینے کا عہد نہیں لے لیا ۔
(کافی، ج 5, ص 151, تہذیب ج 7 ص 5، وسائل ج 21 ص 682)
ایک جگہ روایت کے الفاظ میں سچ بولنے کی تاکید کی چاہے فائدہ ہو یا نہ ہو۔
روایت اگرچہ سند کے لحاظ سے ضعیف ہے مگر مجھے کوئی بھی تجارتی معاملات میں اس سے اچھے احکام دکھائے تو میں شکر گزار ہونگا۔
سیلز کرنا ایک آرٹ ہے جس میں خوش اخلاقی سب سے زیادہ مطلوب ہے۔ ماتھے پر بل اور درشت آواز کے بغیر کسٹمر سے معاملہ کرنا اچھے سیلز مین کی نشانی ہے۔
کاروبار کرنے سے پہلے تفقہ بہت ضروری ہے۔ امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں۔
“عقل سے خرید و فروخت کرنے والوں کے علاوہ کوئی بازار میں نہ بیٹھے”
(کافی ج 5 ص 154، من لا یحضرہ الفقیہ ج 3 ص193، التہذیب جلد 7 ص 5)
امیر المومنین معاملات کو سیکھے بغیر کاروبار کرنے کو منع کرتے تھے مبادا انسان ربا میں گرفتار ہوجائے ۔
اللہ ہمیں سچا اور کھرا مسلمان بننے اور معاملات کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
ابو جون رضا