میں ہمیشہ اپنے ٹریننگ سیشنز میں بینکرز کو ڈیجٹل ورلڈ ، اے آئی اور آن لائن فراڈز کے بارے میں آگہی دیتا ہوں۔ میں اکثر اوقات بینکرز کے لیے فری ویب نارز کے لنک مہیا کرتا ہوں جن میں ڈیجٹل فراڈز، بلاک چین وغیرہ پر فری سیمنارز منعقد ہوتے ہیں جس سے میرے واٹس اپ گروپ کے لوگ مستفید ہوتے ہیں ۔
ازل سے شر کا سلسلہ خیر کے متوازی موجود ہے۔ انسانی ذہن ہمیشہ کم وقت میں اونچی اڑان بھرنے کا سوچتا ہے۔ اس کے لیے معصوم لوگوں کو بیوقوف بنانا سب سے آسان راستہ سمجھا جاتا ہے۔
کچھ عرصے پہلے “بی کیپر” کے نام سے جیسن اسٹھیتم کی مووی آئی جس میں ایک خاتون کی آن لائن فراڈ کے زریعے عمر بھر کی کمائی اسکیمرز لے اڑے۔ اس مووی کا ایک سین ہے جس میں جب اسکیمر خاتون سے بات کررہا ہے تو پیچھے بیس سے پچیس افراد لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر پر بیٹھے کام کررہے ہیں، وہ اسکیمر کے ساتھی ہیں۔ ان کام اس کھیل میں ٹیم کی طرح ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔ وہ قد آدم اسکرین پر کال پر بات کرنے والے کو دکھا رہے ہیں کہ خاتون کے اکاوئنٹ میں کتنے پیسے ہیں۔ کتنا پراویڈنٹ فنڈ ہے اور پھر وہ سب کچھ ایک جھٹکے میں اڑا لے جاتے ہیں۔
پاکستان میں ابتدائی طور پر سوشل میڈیا پر فراڈ ، محترمہ “صباء” کے نام سے مشہور ہوا، جو ہر وقت ایمرجنسی میں رہتی تھی اور پیسے مانگتی رہتی تھی۔ موبائل پر میسج آتے تھے اور ہمارے نوجوانوں کی خودی کو للکارا جاتا تھا ، جن کی خودی عورت کا نام میسج پر دیکھتے ہی بلند ہوجاتی تھی۔
ہمارے ایک دوست کے چار ہزار روپے اسکیمر نے اڑا لیے۔ انہوں نے موبائل کی دکان سے موبائل کارڈ خرید کر اس کے نمبر اسکریچ کرکے لڑکی کو دیے جو بار بار ان کو کال کررہی تھی۔ لڑکی کی آواز سے ان کے بدن میں بانسری بجنے لگ جاتی تھی۔ بیروزگار ہوتے ہوئے بھی چار ہزار روپے آج سے دس سال پہلے انہوں نے لڑکی کی آواز پر لٹا دیے۔ اللہ ان کو اس کی کامل جزاء عنایت فرمائے ۔
نیٹ فلیکس پر ایک سیزن دو حصوں میں نشر ہوا۔ اس کا نام “جمتارا، سب کا نمبر آئے گا” تھا۔ اس کا مرکزی خیال آن لائن فراڈ پر مبنی تھا۔ مرچ مصالحہ لگانے کے لیے کچھ بیہودگی بھی شامل کی گئی تھی ، جس کو نظر انداز کیا جائے تو پتا چلتا یے کہ اسکیمرز کس قدر منظم انداز میں کام کرتے ہیں۔ اسی سیریز کے دوسرے سیزن میں اسکیمرز کو پکڑ لیا جاتا یے۔ جب عدالت میں پیش کیا جاتا یے تو شناخت کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے پیسے اڑائے ہیں؟ ثبوت کی عدم دستیابی اور صحیح معنوں میں قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے اسکیمرز باآسانی رہا ہوجاتے ہیں۔
جب “صباء” اس حد تک مشہور ہوگئیں کہ “ابھی نندن” پائلٹ آفیسر کا جہاز ڈاگ فائٹ میں کریش ہوکر پاکستان میں گرا اور وہ جہاز سے باہر نکلا، باہر نکلتے ہی پہلا مسیج اس کو “صباء” کا موصول ہوا تو اسکیمرز نے طریقے بدل لیے۔
انہوں نے لوگوں کو فون کرکے کہنا شروع کیا کہ میں اسٹیٹ بنک سے بول رہا ہوں، آپ کا اکاوئنٹ بند ہونے والا ہے، مجھے معلومات کنفرم کریں، یا پھر فوج سے بات کررہا ہوں، مجھے اپنی بنیادی معلومات فراہم کریں ۔
سادہ لوح لوگ گھبرا کر اپنے کوائف بتا دیتے تھے اور لٹ جاتے تھے۔
اس پر بنکس نے مہم چلائی جس کے زریعے لوگوں کو آگہی دی کہ اپنا موبائل اکاؤنٹ یا او ٹی ٹی یا کوئی اور کوائف کسی کو نہ دیں۔ بنک کبھی آپ سے ذاتی معلومات نہیں پوچھتا۔
صرف دو ہزار تئیس میں پورے پاکستان سے تقریبا چھ ارب روپے کا آن لائن فراڈ ہوا جن میں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بینکرز کے اکاوئنٹ سے اسکیمرز ان کو بیوقوف بنا کر پیسے لے اڑے ۔ جب ایک بینکر اسکیمر کے ہاتھوں بیوقوف بن سکتا ہے تو عام آدمی کو کیا دوش دیا جائے۔
میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والی رقم جن اکاؤنٹس میں جاتی تھی ، ان افراد کی ایک کثیر تعداد کسی جاننے والے بندے کے ساتھ آتی تھی اور اے ٹی ایم کے باہر وہ چادر بچھا کر بیٹھ جاتے تھے ۔ جن صاحب کو وہ لیکر آتے تھے وہ اے ٹی ایم روم میں سب کے کارڈز لیکر گھس جاتا تھا ، اس کے پاس سب کے پاسورڈ لکھے ہوتے تھے۔ وہ ایک ایک کرکے کارڈ مشین میں ڈالتا تھا، اس میں سے رقم نکالتا تھا اور اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔ فراغت کے بعد وہ باہر آکر رقم تقسیم کرتا تھا اور فی ٹرانزیکشن سب سے دو سو یا ڈیڑھ سو روپے چارج کرتا تھا۔ ایک دن میں وہ تین چار ہزار روپے کی کم سے کم کمائی کرتا تھا۔
ایسے ان پڑھ لوگ بے تحاشہ ہمارے ملک میں موجود ہیں جن کی وجہ سے اسکیمرز کے گھر کے چولہے جلتے ہیں۔
میں ہمیشہ بینکرز کو کہتا ہوں کہ آپ کو اپ ٹو ڈیٹ رہنے کی ہمہ وقت ضرورت ہے۔ معاشرے کا پڑھا لکھا، جاہل، ان پڑھ گنوار ہر طرح کا شخص آپ سے ملتا ہے ، خاص کر فرنٹ لائن میں کام کرنے والے لوگ یا جو برانچز میں بیٹھے ہیں ان کو ٹرینگنز کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو درست آگہی دے سکتے ہیں اور لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔
یاد رکھیے کہ اسکیمرز ہمیشہ پولیس، ایف ائی اے، بینکرز سے ایک قدم اگے ہی رہتے ہیں ۔ اگر آپ کا کام لوگوں کے پیسوں کی حفاظت کرنا ہے تو ان کا کام ساری سیکیوٹی حدود کو پامال کرکے پیسہ اڑا لے جانا ہے۔
اے آئی کے آنے بعد یہ معاملہ اور گھمبیر ہوگیا ہے۔گھر والوں کو کال آتی ہے، کال کرنے والی کی آواز اور گھر کے فرد کی آواز میں کوئی فرق نہیں ہوتا، کال کرنے والا جلدی میں کہتا ہے کہ پیسے ٹرانسفر کرو ، گھر والے گھبرا کر جلدی سے پیسے آن لائن ٹرانسفر کرتے ہیں ، بعد میں پتا چلتا ہے کہ آواز بھی اب کاپی ہوجاتی ہے جس میں اے آئی اسکیمرز کی مدد کرتی ہے۔ فیس بک پر نقلی آئی ڈی بنا کر لوگوں سے دوستیاں کی جاتی ہیں۔ ڈونیشن مانگا جاتا ہے ، واٹس اپ نمبر لیا جاتا ہے۔ سروے کے نام پر ایک لنک بھیجا جاتا یے جس پر کلک کرتے ہی موبائل ہیک ہوجاتا ہے۔ پیسے اڑا لیے جاتے ہیں۔
آج کے جدید دور میں موبائل بنکنگ یا آن لائن انٹرنیٹ بنکنگ سے کنارہ کشی کرنا ممکن نہیں ہے۔ میں کبھی یہ نہیں کہوں گا کہ ان چیزوں سے اجتناب کریں مگر کچھ احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کریں۔
جس اکاوئنٹ میں آپ کے سب سے زیادہ پیسے پڑے رہتے ہیں۔ اس کو انٹرنیٹ سے علیحدہ رکھیں۔ ایک سے زیادہ اکاؤنٹ رکھیں۔ صرف ایک اکاؤنٹ ہو جو آن لائن، موبائل بنکنگ اور انٹر نیٹ بنکنگ سے لنک ہو۔ اس میں زیادہ سے زیادہ پانچ دس ہزار روپے پڑے ہوں ، اگر آپ موبائل بنکنگ اور انٹرنیٹ فراڈز کو بھانپنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔
جب بھی آپ کو آن لائن شاپنگ کرنی ہے یا پھر فوڈ پانڈا سے کچھ آڈر کرنا ہے ،اس اکاؤنٹ کے ویزہ کارڈ کا نمبر ڈالیے جس کو آپ نے انہی کاموں کے لیے رکھا ہوا ہے۔
موبائل اکاؤنٹس میں کبھی زیادہ پیسے نہ رکھیے۔ میرے پاس ایزی پیسہ، جیز کیش اکاؤنٹ موجود ہیں مگر بمشکل دو ہزار روپے ان میں رکھے ہونگے۔
اگر کبھی کسی کی کال آئے چاہے وہ گھر کا کوئی فرد ہی کیوں نہ بول رہا ہو، جلد بازی میں پیسے ٹرانسفر نہ کریں۔ اگر رقم زیادہ بڑی ہے تو مکمل طور پر اطمینان کرلیں کہ آپ کو آپ کے گھر کے فرد نے ہی کال کی ہے۔ اس بات کو آپ دنیا میں سب زیادہ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ کسطرح سے گھر کے فرد کو ویری فائی کیا جاسکتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر گھر والا کال کرکے کہہ رہا یے کہ پیسے فلاں اکاؤنٹ میں بھیجو تو آپ پوچھ سکتے ہیں کل جو پیسے بدو خالہ کے اکاؤنٹ میں بھیجے تھے وہ کب واپس ملیں گے ؟ جو بھی جواب آئے گا وہ بتا دے گا کہ کال پر گھر والا موجود ہے یا کوئی اور ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ “صباء” کی جگہ بدو خالہ مشہور ہو جائیں ۔ آپ اپنی مرضی کا کوئی بھی سیکرٹ سوال کرسکتے ہیں جس کا صحیح جواب ، صرف آپ کو یا آپ کے گھر کے فرد کو پتا ہوگا۔
گھر کے بچوں کو کبھی اپنے اکاؤنٹ تک رسائی نہ دیں۔ بچے گیمز کے لیے آن لائن خریداری کرتے ہیں ، ان کو بآسانی بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔
جدید دور میں جو آسانیاں میسر ہیں ان سے فائدہ آٹھائیے مگر شعور اور علم کو ہمیشہ بلند کرتے رہیے۔
اتنا عقل مند ضرور بنیں جو خیر کا باعث ہو، ناکہ وہ نادان شخص، جس کی بیوقوفیاں اس کے لیے اور معاشرے دونوں کے لیے نقصان کا سبب بنیں۔
اللہ ہم سب کو فراڈ اور دھوکے سے محفوظ رکھے۔
ابو جون رضا