قبر کیا چیز ہے؟
ایک انسان کو مٹی کے سپرد کردیا۔
یعنی اب اس کا نشان باقی نہیں ہے۔ اب اسکی فکر چاہے اچھی ہے یا بری، وہ باقی ہے۔
دوسری طرف یہ جائے عبرت ہے۔ اسی لیے قبرستان کے آداب ہیں۔ یہاں جا کر انسان کا دل نرم ہوتا ہے۔ انسان زبان حال یہ کہتا ہے کہ تم چلے گئے ، ہم بھی پیچھے آنے والے ہیں۔
لیکن لوگوں میں یہاں فکر کہاں سے آئی ، اس کا پتا نہیں ہے، مگر یہ قبر کو ایسا سمجھتے ہیں کہ انسان اندر تخت پر بیٹھا ہے۔ دربار لگا ہوا ہے۔ نعمتیں بٹ رہی ہیں۔ دعائیں قبول ہورہی ہیں وغیرہ
یہ تصویریں بھی اپنی فیس بک وال پر قبروں کی ہی لگاتے ہیں۔ ان کو دنیا میں اور کچھ نظر نہیں آتا۔
اس وجہ سے صرف کراچی میں کئی مساجد اور امام بارگاہوں میں ہی پیش امام، شہید ہونے والے لوگ ، زاکر وغیرہ دفن ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ہر کسی کو کمرہ الاٹ کردیا جائے کہ اپنی زمین ہے ، اپنی جگہ ہے تو دنیا میں صرف قبریں ہی ہونگی۔
سندھ میں ایک صاحب نے اپنے لڑکے کی قبر کا مزار بنا لیا ہے۔ باقاعدہ کمرے بنائے ہیں جہاں وہ ہر ویک اینڈ ہر جاکر ٹہرتے ہیں۔ ایک مولوی رکھا ہوا ہے ، ایک صفائی کرنے والا رکھا ہوا ہے۔ زمین اپنی ہے، پیسہ اپنا لگایا ہے۔ (اس پر تفصیلی پوسٹ میری وال پر موجود ہے)
ان قبروں کو دیکھ کر عبرت نہیں ہوتی بلکہ خواہش یہ جاگتی ہے کہ ہماری قبر بھی ایسی ہی ہو جہاں ہمہ وقت لوگوں کا تانتا بندھا رہے، ہر وقت ہمیں نام نہاد ثواب بھیجا جائے۔
لوگ تو پورا مینو لکھوا کر وصیت میں گئے کہ ہر جمعرات کو فاتحہ میں کیا ہونا چاہیے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ اللہ نے اپنے ایک لاکھ انبیاء کی تدفین کے لیے یہ خاص اہتمام نہیں کروایا؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن اس فکر کے الٹ بات کیوں کرتا ہے؟
سورہ یس میں ایک شخص کا ذکر ہے جس کی موت کے بعد کے الفاظ قرآن نے نقل کیے ہیں،
قِیۡلَ ادۡخُلِ الۡجَنَّۃَ ؕ قَالَ یٰلَیۡتَ قَوۡمِیۡ یَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾
اس سے کہدیا گیا: جنت میں داخل ہو جاؤ، اس نے کہا: کاش! میری قوم کو اس بات کا علم ہو جاتا،
دنیا میں رہنے والے لوگ اسی طرح سے مرنے والے کے حالات سے بے خبر ہیں جیسے ایسی دنیا میں ماں کے پیٹ میں موجود بچہ جس کو باہر کی دنیا کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔
قرآن کریم زندہ افراد کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے ۔ جو اس کو سنتے ہیں، اس پر تدبر کرتے ہیں۔ قرآن خود اپنا مقصد بیان کرتا ہے
اِنَّمَا یَسۡتَجِیۡبُ الَّذِیۡنَ یَسۡمَعُوۡنَ ؕؔ وَ الۡمَوۡتٰی یَبۡعَثُہُمُ اللّٰہُ ثُمَّ اِلَیۡہِ یُرۡجَعُوۡنَ (سورہ انعام آیت 36)
یقینا مانتے وہی ہیں جو سنتے ہیں اور مردوں کو تو اللہ (قبروں سے) اٹھائے گا پھر وہ اسی کی طرف پلٹائے جائیں گے۔
قرآن میں حضرت عزیر جو نبی تھے، کا ذکر موجود ہے۔ وہ ایک بستی کے پاس سے گزرے جو اجڑ چکی تھی۔ تعجب سے فرمایا کہ خدا ان کو کس طرح سے زندہ کرے گا؟ خدا نے ان پر موت مسلط کی اور ان کو سو برس تک مردہ رکھا، جب اٹھایا تو پوچھا کہ کتنی مدت تک رہے،کہنے لگے کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ (تفصیلات کے لیے سورہ بقرہ آیت 259 ملاحظہ کیجیے)
سوال یہ ہے کہ وہ مردہ ہونے کے بعد جبکہ نبی تھے دنیا کے حالات سے بے خبر کیوں رہے؟
یہاں تک کہ نبی کے سامنے ظالموں یا کفار کی روح فرشتے قبض کررہے ہوتے ہیں مگر اس کو علم نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جارہا ہے۔
وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ یَتَوَفَّی الَّذِیۡنَ کَفَرُوا ۙ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡہَہُمۡ وَ اَدۡبَارَہُمۡ ۚ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ
﴿ سورہ انفال آیت ۵۰﴾
۵۰۔ اور کاش آپ (اس صورت حال کو) دیکھ لیتے جب فرشتے (مقتول) کافروں کی روحیں قبض کر رہے تھے، ان کے چہروں اور پشتوں پر ضربیں لگا رہے تھے اور (کہتے جا رہے تھے) اب جلنے کا عذاب چکھو ۔
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ وَّ مَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوۡۤا اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ کُنۡتُمۡ عَنۡ اٰیٰتِہٖ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ
﴿سورہ انعام آیت ۹۳﴾
اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی ہوئی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نہیں ہوئی اور جو یہ کہے کہ جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ویسا میں بھی نازل کر سکتا ہوں اور کاش آپ ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھ لیتے جب فرشتے ہاتھ بڑھائے ہوئے کہ رہے ہوں: نکالو اپنی جان، آج تمہیں ذلت آمیز عذاب دیا جائے گا کیونکہ تم اللہ پر ناحق باتوں کی تہمت لگایا کرتے تھے اور اللہ کی نشانیوں کے مقابلے میں تکبر کیا کرتے تھے۔
اہلتشیع قبر پر جاکر ماتم داری سے سمجھتے ہیں مردہ خوش ہوتا ہے، اہلسنت قبر پر جاکر دھمال ڈال کر مردے کا دل بہلاتے ہیں۔
سب کے اپنے اپنے ورزن ہیں۔
حضرت علی نے اپنے فرزندوں سے ضرب لگنے کے بعد فرمایا کہ میں کل تک تمہارا ساتھی تھا، آج جائے عبرت ہوں۔
یعنی آپ کو دیکھنا اور سمجھنا چاہیے کہ ایک ہٹا کٹا انسان کس طرح سے بستر پر اور پھر قبر میں پہنچ جاتا ہے۔
رہ جاتے ہیں تو بس افکار۔
انسان کا اپنے ماں باپ سے قلبی تعلق ہونا ایک فطری عمل ہے۔ وہ ان کے لیے دعائے مغفرت کرتا ہے ، ان کے اچھے اعمال کا ذکر کرتا ہے۔ مرنے کے بعد پیاروں کے جسم میں بدبو اسی لیے پیدا کی گئی کہ ان کو دفن کرا جائے نہ کہ ممی بنا کر رکھ لیا جائے
دو نسلوں بعد تیسری نسل پچھلوں کے نام بھی بھول جاتی ہے۔ یہی اس دنیا کا نظام ہے۔
ایسے عمل کیجئے جو آپ کو تادیر دنیا میں زندہ رکھ سکیں، قبر کے گرد کمرے بناکر اور ماتم داری یا دھمال ڈال کر مردوں کو خوش کرنے کی کوشش نہ کیجئے۔
کاش ! مردے بھی دیکھ پاتے کہ ان کے مزارات اس وقت سیلفیوں اور ذاتی شو بازی کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔
ابو جون رضا