چند سال سکون سے گزرتے ہیں اور پھر فلسطین میں نہتے افراد کا خون بہنے لگتا ہے۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک تنظیم چھاپہ مار کاروائیاں کرتی ہے ۔ جب وہ حملہ کرتی ہے تو اس کو اللہ کی مدد اور ابابیلوں کا ہاتھیوں پر حملہ سے تعبیر کرکے بغلیں بجائی جاتی ہیں۔ پھر جب جوابی وار ایک طاقت ور اور ظالم حکومت کرتی ہے تو اللہ اور امام مہدی کے نام کی دہائی دی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو غیرت دلائی جاتی ہے کہ شرم کرو ،تمہاے بھائیوں پر ظلم ہورہا ہے اور تم بے غیرت بنے گھروں میں بیٹھے ہو۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چند تنظیمیں احتجاجی ریلیاں نکالتی ہیں اور گھوڑوں پر سوار مرد و عورت شاہراہ فیصل پر فلسطین کا پرچم اٹھائے مارچ کرتے نظر آتے ہیں۔ ملا مسجدوں کے اندر اور باہر تقریریں کرتے ہیں کہ اسرائیل کا وجود مکڑی کے جالے سے بھی کم زور ہے اور آئندہ پچیس سالوں میں اسرائیل اس دنیا کے نقشے سے غائب ہوجائے گا وغیرہ۔
یہ دیوانے کی وہ بڑ ہے جن کو سن سن کر اب کان پک چکے ہیں۔ اس وقت اسرائیل ایک ایسی حقیقت ہے جس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی بات مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے۔ یہاں تک کہ اگر آسمان سے بھی کوئی نازل ہوجائے تو بھی اس وقت ایک مکمل طور پر طاقت ور ملک کو ختم نہیں کرپائے گا۔
لیکن ملاؤں کے تربیت یافتہ منجمد ذہنوں کے لوگ دنیا کا چلن جانے بغیر، اسرائیل کا پرچم دانتوں سے نوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ پھر سے جنگ بندی ہوجاتی ہے۔
لوگ سب کچھ بھول بھال دوسرے ایشوز کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں، اور وہ معصوم بچے اور عورتیں جن کے گھر والے ان جنگوں کا شکار بنتے ہیں وہ حسرت سے آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں کہ شاید خدا کوئی مسیحا اتار دے۔
لیکن کوئی مسیحا نہیں اترتا۔
رسول اکرم کی زندگی کا جائزہ لیں تو ابتدائے اسلام میں ان کے سامنے کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے تھے۔ آپ نے کافروں سے جنگی جدال کے بجائے مکمل طور پر اعراض سے کام لیا اور خود کو توحید کی دعوت پر مرکوز رکھا۔ اسی طرح سے جب حدیبیہ کا معاملہ پیش آیا تو آپ نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے یکطرفہ طور پر کفار کی ساری شرطیں مان کر معاہدہ کیا جس پر مسلمان بھی ناخوش تھے کیونکہ وہ جنگ کرنا چاہتے تھے ، مگر خدا نے اس معاہدے کو فتح مبین قرار دیا اور پھر دو سال کی قلیل مدت میں مکہ بغیر کسی جنگ کے فتح ہوگیا۔
رسول اکرم سن آٹھ ہجری میں جب مدینے سے مکہ کی طرف نکلے تو کسی صحابی نے کہا کہ آج جنگ کا دن ہے، رسول اکرم نے جب یہ سنا تو فرمایا “نہیں آج رحمت کا دن ہے”
نبی کریم کے اسوہ سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ امن کبھی بھی دوطرفہ بنیاد پر قائم نہیں ہوتا بلکہ یک طرفہ “صبر” کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے ، اور امن وہ چیز ہے جس کو ہر قیمت پر انسان کو خریدنا چاہیے۔
اسلام کی نظریاتی فتح اس کی سیاسی فتح سے کہیں بلند و بالا یے۔ افسوس کہ اس وقت سیاست کے نام پر جو ہاہا کار مسلمانوں نے مچائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے دعوتی عمل زمانہ سے منقطع ہے۔ یہ اصل میں وہ نفرت ہے جو انسان سے انسانوں کو مذہب کے نام پر کروائی گئی ہے۔
یاد رکھیے کہ تشدد کبھی اصلاح پیدا نہیں کرتا بلکہ نفرت و عداوت پیدا کرتا ہے اور،
“نفرت چاہے کسی صحیفے میں لکھی ہو یا سفید پارچے میں لپٹی ہو، بہرحال انسان اور اس کے کاموں کی نفی ہے”
دعا ہے پروردگار ! فلسطین میں امن پیدا ہو اور لوگوں کو شعور عطا ہو کہ وہ جنگ کے بجائے امن کو ہر چیز پر ترجیح دیں۔
ابو جون رضا