ول ڈیورانٹ کی کتاب “The Story of Civilization”، جس کا اردو ترجمہ یاسر جواد صاحب نے کیا ہے، ایک شاندار تاریخی کتاب ہے جو گیارہ جلدوں پر مشتمل ہے اور اس میں انسانی تمدن کی تاریخ کا جامع اور وسیع جائزہ دیا گیا ہے۔
ول ڈیورانٹ نے کتاب میں دنیا کے مختلف تمدنوں، مذاہب، سیاسی نظاموں، اور فنون کی تاریخ کو شامل کیا ہے۔ وہ مواد کو زیبائشی اور دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں جو قارئین کو تاریخی واقعات کو بہترین طریقے سے سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ڈاکٹر مبارک علی، کے مطابق تاریخ کو سمجھنے کے لیے چند اصولوں کی پاسداری ضروری ہے۔ جیسے،
- تاریخ کے مواد کا منتخب کرنا:
ہمیں منتخب کرنا ہوتا ہے کہ کونسے واقعات اور مواد کو تشہیر دینا ہے۔ انتخاب کے دوران ترتیب دینا بھی اہم ہوتا ہے تاکہ تاریخ کی فہم میں روشنی آ سکے۔
- تاریخی سیاق کی تشہیر:
ڈاکٹر مبارک علی کے خیال میں ہر تاریخی واقعہ اپنے معاشرتی، سیاسی، اور اقتصادی سیاق میں دیکھا جانا چاہئے۔ تاریخ کو واقعات کی فہم کے ساتھ ساتھ ان کے پس پیچھے چھپے سیاق کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔
- منطقی تاریخ:
ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق تاریخ کو منطقی اور ترتیب دار طریقے سے پیش کرنا چاہئے۔ تاریخی واقعات کے بیچ میں تعلقات کو سمجھنا اور منطقی ترتیب دینا تاریخی تجزیے کی اہمیت کا حصہ ہے۔
- مخصوص موضوع کی تعلیم:
ڈاکٹر مبارک علی کا تاثر یہ ہے کہ تاریخ کو عمومی اور مخصوص موضوعات کی روشنی میں پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔ تاریخ کی مخصوص موضوعات پر تحقیق کرنے سے ہم تاریخی واقعات کو بہترین طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔
تاریخ انسانی تمدن کے تاریخی واقعات، وقوعات، افراد، جغرافیائی تبدیلیوں، اور معاشرتی ترقی کا مطالعہ ہے۔
تاریخی تجزیے کے ذریعے ہم انسان کی ماضی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ہمیں اپنے معاشرتی، سیاسی، اور فرہنگی ترقی کے عوامل کا علم ہو سکے۔
ابن خلدون، جو اندلسی تاریخ دان تھے، نے بھی اپنی معروف کتاب “المقدمة” (The Muqaddimah) میں تاریخ کے معاون اصولوں کو پیش کیا۔ جس کے مطابق تاریخ کی ترقی اور تنزیل کو معاشرتی، اقتصادی، اور سیاسی عوامل کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔
ابن خلدون نے تاریخی واقعات کے پیچھے چھپے عوامل کو اہمیت دینے کی تصور کو ترویج دیا۔ ان کا فہم، تاریخ کے پیچھے چھپی قوتوں، معاشرتی تبدیلیوں، اور افراد کی تاثرات کو اہمیت دیتا ہے۔
اس کتاب کی پہلی جلد آج مجھے موصول ہوئی۔ جس میں یاسر جواد صاحب کا محبت بھرا نوٹ ان کے قلم سے لکھا ہوا موجود تھا۔ پاکستان کے سب سے بڑے مترجم کے قلم سے لکھے چند الفاظ میرے لیے فخر اور انبساط کا باعث ہیں۔
یاسر جواد صاحب نے اصل میں ول ڈیورانٹ کی فکری وراثت کو اردو زبان کے قارئین تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ان کی صحت و سلامتی اور پروجیکٹ کے خوش اسلوبی کے ساتھ مکمل ہونے کے لیے دل سے دعا نکلی۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ابو جون رضا