اہل تشیع کو پہلی بار ایران میں اقتدار کی دولت ہاتھ آئی تھی۔ اس سے پہلے اہل تشیع ہر دور میں حکمرانوں کے ظلم کا شکار رہے تھے ۔ شاہ اسماعیل صفوی جو اصلا ترک تھے انہوں نے ایران پر 1501 میں اقتدار حاصل کیا تھا اور کافی عرصہ کامیابی سے حکومت کی۔
جب اہل تشیع کو اقتدار ملا تو انہوں نے بھی اپنے رنگ دکھائے۔ یہ ایران کے شیعی دور کا آغاز تھا۔ اس سے قبل ایران میں اکثریت سنی حکمران خاندانوں کی رہی تھی اور سرکاری مذہب بھی اہل سنت کا تھا لیکن شاہ اسماعیل نے تبریز پر قبضہ کرنے کے بعد شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا تھا۔ شاہ اسماعیل کی فوج “قزلباش” کہلاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسماعیل کے باپ حیدر نے اپنے پیروؤں کے لیے سرخ رنگ کی ایک مخصوص ٹوپی مقرر کی تھی جس میں 12 اماموں کی نسبت سے 12 کنگورے تھے۔ ٹوپی کا رنگ چونکہ سرخ تھا اس لیے ترکی میں ان کو قزلباش یعنی سرخ ٹوپی والے کہا گیا۔
اس زمانے میں بازار، مسافر خانہ یا سرائے میں عوام کے بیچوں بیچ کوئی بھی شیعہ نمودار ہوکر لعنت و تبراء بھیجتا تھا اور جتنے لوگ موقع پر موجود ہوتے تھے ان کو باآواز بلند “بیش باد” یعنی “اور بھی زیادہ” کہہ کر جواب دینا پڑتا تھا۔ (آج بھی شیعہ محافل میں تبراء کا جواب بیشمار کہہ کر دیا جاتا ہے جو اصلا بیش باد سے ہی نکلا ہے). اگر کوئی شخص جواب نہیں دیتا تھا تو اس کو دشمن اہلبیت سمجھا جاتا تھا اور سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
اس وقت تبریز کی دو تہائی آبادی سنی تھی اور شیعہ اقلیت میں تھے۔ خود شیعی علما نے اس طرح کے اقدامات کی مخالفت کی لیکن کچھ جوانی کا گرم خون اور کچھ عقیدے کی محبت، شاہ اسماعیل نے ان مشوروں کو رد کرکے تلوار ہی کو سب سے بڑی مصلحت قرار دیا۔ جس کی وجہ سے ہزار ہا لوگوں نے ایران چھوڑدیا۔ اور جو ملک چھوڑنے سے قاصر تھے انہوں نے شیعہ مسلک اختیار کرلیا۔
اس زمانے کے کچھ مخطوطے محقق رسول جعفریان نے دریافت کیے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ شیعہ علماء کو بھی اس شہنشاہیت سے کس قدر فوائد حاصل تھے کہ ایک خط میں شیعہ عالم بادشاہ کے نام خط میں اس کی بے انتہاء تعریفیں کرتا ہے اور دعائیں کرتا ہے کہ شاہ کا اقتدار اتنا طویل ہو کہ امام مہدی پردہ غیبت سے تشریف لے آئیں۔
صفوی حکومت بہت طویل رقبے پر قائم تھی جن میں ایران، جمہوریہ آذربائیجان، بحرین، آرمینیا، مشرقی جارجیا کے کچھ حصوں کے علاوہ شمالی قفقاز بشمول روس، عراق، کویت، افغانستان، نیز ترکی، شام، ترکمانستان اور ازبکستان کے کچھ حصے بھی شامل تھے ۔
صفویوں نے ایران کے بعد تلوار کے زور پر مسلک کو پھیلانے کا تجربہ دو جگہ پر انجام دینے کی کوشش کی۔ ایک افغانستان اور دوسرا ترکی۔ ترکی میں سلطان سلیم سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی اور ایران اور ترکی کی موجودہ سرحد پر ترکی کی حدود میں واقع ایک مقام چالدران کے پاس صفیوں اور ترکیوں میں 1514ء میں خونریز جنگ ہوئی جو تاریخ میں جنگ چالدران کے نام سے مشہور ہے۔
ایرانیوں نے بڑی شجاعت سے ترکوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن ترکوں کی کثرت تعداد، توپ اور آتشیں اسلحے کے سامنے ایرانی بے بس ہو گئے۔ ان کو شکست فاش ہوئی ، 25 ہزار ایرانی مارے گئے اور شاہ اسماعیل زخمی ہوکر فرار ہونے پر مجبور ہوا۔
سلطان سلیم نے آگے بڑھ کر دار الحکومت تبریز پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلیم کی واپسی پر تبریز اور آذربائیجان تو صفوی سلطنت کو واپس مل گئے لیکن دیار بکر اور مشرقی ایشیائے کوچک کے صوبے ہمیشہ کے لیے صفویوں کے ہاتھ سے نکل گئے ۔
اسی طرح سے افغانستان میں جب تبریز کا تجربہ دہرانے کی کوشش کی گئی تو افغانیوں نے جو ایک جنگجو قوم تھی، اس نے مزاحمت کی اور ایرانیوں پر حملے کیے ۔ ایک مرتبہ اصفہان پر حملہ کرکے سینکڑوں عورتوں کی عصمت دری کی اور بچوں بوڑھوں تک کو تہہ تیغ کر ڈالا۔
صفوی دور میں عشرہ محرم میں باقاعدہ عزائے سید الشہداء منانے کا آغاز ہوا۔ نو محرم اور دس محرم کو بازار بند رہے، اور پہلی بار ماتمی جلوس برآمد ہوئے۔
مخطوطات اور آثار تشیع جو مختلف جگہوں پر بکھرے ہوئے تھے ان کو جمع کر کے ایک جگہ مرتب کرنے کا کام بھی صفوی دور میں شروع ہوا۔ علماء کو سکون میسر ہوا تو انہوں آثار جمع کرنے شروع کیے اور ان گنت روایات اور واقعات کو کتابوں میں جگہ دی ، جس کی وجہ سے جھوٹی اور خلاف قرآن باتیں بھی شیعہ کتابوں میں در آئیں۔
بلاشبہ اس حوالے سے صفوی دور شیعت کا تاریک ترین دور کہا جاسکتا ہے جس کے آثار آج بھی شیعہ عوام میں غالیوں اور تبرائی زاکروں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
ماضی کی مقدس ہستیوں کی تکریم اپنی جگہ ، مگر ماضی کی مقدس ہستیوں کی آپس کی لڑائیوں کو آج اپنے گھر میں لانا اور اپنی نسل کو انہی لڑائیوں کی کہانیاں سنا کر ان کے دماغ بند کر دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں عقل و شعور دے اور مذہب کے نام پر نفرت اور خونریزی سے محفوظ رکھے۔
ابو جون رضا
بچانے والی ذات اللہ کی بچنے والی ذات حظرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کی ھے
بچانے والی ذات اللہ کی بچنے والی ذات حظرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ھے