آیت اللہ محمد حسین نجفی صاحب، کچھ یادیں کچھ باتیں

دس سال پہلے مجھے آیت اللہ محمد حسین نجفی صاحب سے میرے استاد جناب جواد رضوی صاحب نے متعارف کروایا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ پاکستان میں ایسی شخصیت موجود ہے اور اس کے بارے میں لوگوں کو پتا ہی نہیں ہے۔

میں نے اپنے اقرباء سے بھی جب نجفی صاحب کا ذکر کیا تو وہ بھی حیرت کرتے تھے کہ ایسی شخصیت سرگودھا میں چھپی بیٹھی ہے ۔

نجفی صاحب انیس سو ساٹھ میں جامع الشرائط مجتہد تھے اور اکثر انہوں نے قم اور نجف کے حوضہ علمیہ میں طلباء کو درس بھی دیے ہیں۔ جس سے ان کی قابلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

نجفی صاحب نے بہت مشکل حالات میں تعلیم حاصل کی یہاں تک کہ دوران تعلیم ان کا بیٹا بیمار ہوا تو ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ اس کے لیے دوائیں خرید سکتے کیونکہ وہ کچھ کتابیں پس انداز پیسوں سے پہلے ہی خرید چکے تھے۔ اس کسمپرسی کے عالم میں اس بچے کا انتقال ہوگیا جس کا ساری زندگی نجفی صاحب کو قلق رہا۔

نجفی صاحب کی مجلس کے بعد سوال و جواب کا سیشن بہت سے عقلیت پسند لوگوں کو متاثر کرتا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ منبر پر جو شخص بیٹھا ہے وہ علم رکھتا ہے۔ نجفی صاحب مجالس کے پیسے لینے کو جائز کام نہیں سمجھتے تھے اس کے علاوہ وہ خمس بھی اکھٹا نہیں کرتے تھے۔ اس وجہ سے وہ کبھی غربت کی سطح سے اوپر اٹھ کر آج کل کے امیر زاکروں اور ملاؤں کی فہرست میں جگہ نہیں بنا سکے۔

دو ہزار دس میں نجفی صاحب کی ویب سائٹ “سبطین ڈاٹ کام” کے نام سے نیٹ پر موجود تھی۔ میں نے وہاں سے کتابیں ڈائنلوڈ کیں اور پڑھنا شروع کیں۔ ان کی توضیح المسائل اپنی نوعیت کی الگ ہی کتاب ہے۔ جس میں ہر مسئلہ پر دلائل دیے گئے ہیں اور بحث کی گئی ہے۔ مثال کے طور خمس کے باب میں بیان کیا گیا ہے کہ اس حوالے سے انیس اقوال موجود ہیں۔ نجفی صاحب ان اقوال کو ایک ایک کرکے نقل کرتے ہیں اور پھر اپنی رائے پیش کرتے ہیں کہ امام مہدی اپنی غیبت کے زمانے میں سہم امام کی تکلیف اٹھا کر چلے گئے اور سہم سادات مومنین خود اپنے جاننے والے مسحق سادات کرام کو دے سکتے ہیں۔ اس زمن میں وہ ایک توقیع کا حوالہ پیش کرتے ہیں۔

میرے آفس کی ایک بہت موسٹ سینئر شخصیت نے مجھ سے کہا کہ ایسی توضیح آج تک نہیں دیکھی ۔ یہ تو علم کا خزانہ ہے۔

نجفی صاحب نے اذان میں شہادت ثالثہ کو بدعت قرار دیا تھا اور اس موقف پر وہ بہت واضح دلائل رکھتے تھے۔ ان سے پہلے آیت اللہ خالصی بھی اذان میں شہادت ثالثہ کے انکار کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے اور میری معلومات کے مطابق کاظمین میں واحد ان کی ہی مسجد تھی جہاں سے اذان میں شہادت ثالثہ کے جملے ادا نہیں کیے جاتے تھے۔

نجفی صاحب پر خالصی ہونے کا الزام لگا جبکہ وہ کہتے تھے کہ میں نے خالصی صاحب سے تعلیم حاصل نہیں کی ، اگرچہ میں ان سے تعلیم حاصل کرتا ، تو ان کا شاگرد کہلانے میں فخر محسوس کرتا۔

نجفی صاحب ولایت تکوینی کو نہیں مانتے تھے ۔ ان کے نزدیک یہ ائمہ کو خدا کے اختیارات سونپنے کے مترادف ہے اور یہ تفویض کی ہی ایک شکل ہے۔ اس کے علاوہ جناب سکینہ کے زندان میں انتقال اور جناب ام لیلی کے کربلا میں موجود ہونے کو من گھڑت واقعہ قرار دیتے تھے۔ انہوں نے “سعادت الدارین فی مقتل حسین” کے عنوان سے ایک ضغیم کتاب لکھی جن میں بعض مشہور واقعات کربلا جیسے مہندی اور عروسی شہزادہ قاسم کا دلائل سے رد پیش کیا۔

نجفی صاحب کھانے پر فاتحہ کو بھی بدعت قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول اکرم اور ائمہ کی زندگی میں اس عمل کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اسی طرح سے وہ مختلف اقسام کی چلہ کشی اور ان تمام ورد اور عمل کے خلاف تھے جو شاہراہ مقدس سے وارد نہ ہوں۔

انہوں نے صوفیت اور عرفان کے مخالفت میں ایک کتاب لکھی جو صوفیت کو باطنیت کا چربہ قرار دیتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ انہوں نے فلسفہ پر بے بنیاد تنقید کی ہے اور وہ فلسفہ کے پاس سے بھی نہیں گزرے تھے۔ اس کتاب کا رد آیت اللہ نیاز ہمدانی صاحب نے لکھا جس میں انہوں نے نجفی صاحب کی غلطیوں کو واضح کیا۔

نجفی صاحب سیاست میں بھی بہت فحال رہے اور علامہ ساجد علی نقوی صاحب کے قریبی دوستوں میں شامل رہے۔ نجفی صاحب بتاتے تھے کہ ساجد صاحب نے ان کو منع کیا تھا کہ وہ اصول الشریعہ نامی کتاب نہ لکھیں، اس کی وجہ سے مخالفت کا طوفان کھڑا ہوجائے گا۔ مگر نجفی صاحب کسی مخالفت سے نہیں ڈرتے تھے۔ انہوں نے وہ کتاب لکھی اور وہی ہوا جس کی ساجد صاحب نے ہیشن گوئی کی تھی ۔

میرے استاد بتاتے ہیں کہ نجفی صاحب کو تصوف اور عرفان پر کتاب لکھنے سے بھی منع کیا گیا تھا مگر انہوں نے اس معاملے میں اپنا علمی موقف پیش کرنے سے گریز نہیں کیا۔

جس زمانے میں مناظرانہ فضاء پاکستان میں عروج پر تھی اور اہلسنت اور اہل تشیع دونوں طرف سے ایک دوسرے کے عقائد اور مقدسات پر حملے ہورہے تھے ، اس زمانے میں نجفی صاحب نے بھی ایک کتاب “تجلیات صداقت بجواب آفتاب ہدایت” کے عنوان سے لکھی تھی۔ یہ کتاب بہت مشہور ہوئی تھی۔ میں نے جب اس کا مطالعہ کیا تھا تو مجھے ایک اوسط درجے کی مناظرانہ کتاب لگی تھی۔ نجفی صاحب اخباری فکر کے مالک تھے اور علم رجال کو بس ایک ٹول قرار دیتے تھے جس کی ضرورت احادیث کی جانچ میں ہر وقت پیش نہیں آتی ہے۔اس وجہ سے جہاں کوئی حدیث اہل تشیع کے مخالفین نے انکی کتابوں سے پیش کی تھی وہاں نجفی صاحب کے جواب میں ایک تامل اور تاویل کا عنصر واضح نظر آتا ہے۔

نجفی صاحب کے مخالفین میں فاتح ٹیکسلا جناب حافظ بشیر صاحب اور اسماعیل دیوبندی صاحب کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ افسوس کہ منبر سے ایک جامع الشرائط مجتہد پر لعنت کی گئی اور اس کے والدین پر تبراء کیا گیا۔ میں نے خود ایک ذاکر کو منبر سے کہتے سنا کہ ڈھکو کو اپنے باپ کا ہی پتا نہیں ہے وہ کیا ہمیں کچھ بتائے گا۔

دوہزار دس یا گیارہ میں ان کو کراچی میں خمسہ مجالس پڑھنے کے لیے دعوت دی گئی۔ وہ رضویہ میں ایک صاحب کے گھر ٹہرے ہوئے تھے اور سولجر بازار میں مجالس سے خطاب کر رہے تھے۔ وہ بمشکل دو مجالس پڑھ پائے کہ ایک فتنہ برپا ہوا۔ جنگ اخبار میں ڈھکو صاحب کی خمسہ مجالس کا ایک اشتہار چھپا جو میں نے خود دیکھا تھا۔ اس میں عنوان لکھا تھا کہ “ولایت فقیہ حق اور ولایت علی باطل ہے” اس عنوان سے نجفی ڈھکو صاحب خطاب فرمائیں گے۔

لازمی سی بات ہے کہ یہ اشتہار کسی مخالف نے چھپوایا تھا کیونکہ نجفی صاحب ولایت علی کے ساری زندگی پرچارک رہے جبکہ ولایت فقیہ پر ان کو علمی تحفظات تھے ۔

اس اشتہار کا نتیجہ توقع کے مطابق نکلا۔ نجفی صاحب کی رضویہ میں موجود عارضی رہائش گاہ کے باہر مذمتی جلوس برآمد ہوا جن میں شیعوں کی کثیر تعداد شامل تھی ، جو ان پر لعن طعن کررہی تھی۔ مجھے نجفی صاحب کے گارڈ نے بتایا کہ اس جلوس میں (مرحوم) ریحان اعظمی اور کئی مشہور نوحہ خواں بھی شامل تھے۔ یہاں تک کہ رضویہ میں جس گھر میں وہ قیام پزیر تھے اس گھر کی خواتین کو دھمکی آمیز فون آئے اور صاحب خانہ کی والدہ نے ڈھکو صاحب کے آگے ہاتھ جوڑے کہ خدا کے لیے آپ یہاں سے چلے جائیں، ہمیں اپنے بچوں کی جان عزیز ہے تو نجفی صاحب نے رخت سفر باندھا اور پورے کراچی میں کچھ ایجنسی والے اور ان کے حامی افراد ان کو لے کر پھرتے رہے۔
یہاں تک کہ ان کا پڑاؤ عباس ٹاؤن میں ہوا۔جہاں گفت و شنید کے بعد ان کو راضی کیا گیا کہ وہ محفل مسالمہ طرز کی مجلس سے خطاب کریں۔ نجفی صاحب اس پر راضی نہیں تھے لیکن پھر لوگوں کو علم وشعور دینے کی جب بات آئی تو وہ راضی ہوگئے۔ لیکن اچانک سے جن صاحب کے گھر وہ ٹہرے ہوئے تھے وہ ان کے لیے جہاز کا ٹکٹ لے کر آئے اور کہا کہ آپ آج رات یہاں سے نکل جائیں ، آپ کی بارہ بجے رات کی فلائٹ ہے۔

میرے استاد نے مجھے بتایا کہ جس دن وہ رضویہ سے نکلے اس دن انہوں نے مجھے فون کیا اور صورت حال سے آگاہ کیا، میرے استاد نے ان کو کہا کہ اپ میرے گھر آجائیں ، میرا بڑا گھر ہے اور میں پی سی ایچ ایس میں رہتا ہوں، یہاں اس طرح کے مسائل امید ہے کہ پیدا نہیں ہونگے۔ نجفی صاحب نے ہامی بھری تھی اور میرے استاد نے گھر پر جلدی جلدی ان کی آمد کے حوالے سے انتظام شروع کیے کہ نجفی صاحب کا رات کو فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ میں آج رات بارہ بجے کی فلائٹ سے جا رہا ہوں۔ میرے استاد کو بہت افسوس ہوا تو انہوں نے کہا کہ غمگین مت ہو، میرے ساتھ یہ تو ہوتا آیا ہے۔ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔

نجفی صاحب خاموشی سے یہ شہر چھوڑ کر چلے گئے جو غلات اور شاعروں کے ہاتھوں برسوں سے یرغمال ہے۔

پنجاب میں نجفی صاحب کی مخالفت سب سے زیادہ رہی لیکن نجفی صاحب کہتے تھے کہ میں نے شدید ترین مخالفین کی بھی بیماری وغیرہ میں ان کے گھر جاکر عیادت کی اور اگر کوئی موت واقع ہوگئی تو لمبا سفر کرکے ان کے گھر جاکر ان سے تعزیت کی۔

شاید اسی وجہ سے پروردگار نے ان کو بہت لمبی عمر دی اور نجفی صاحب نے دیکھا کہ کس طرح سے لوگ دور دراز کا سفر کرکے ان سے ملنے اور ان کی زیارت کے غرض سے آتے ہیں۔ وہ بہت ضعیف ہوگئے تھے ، کلام نہیں کرپاتے تھے مگر ہاتھ اٹھا کر لوگوں کے لیے دعائے خیر کیا کرتے تھے ۔

نجفی صاحب کی زندگی میں ہی ان کے حامیوں کے دو دھڑے بن گئے اور دونوں ایک دوسرے پر رکیک الزامات لگاتے ہیں۔ ہم ان کی زندگی میں سوشل میڈیا پر ان دو دھڑوں کی جنگ دیکھتے رہے اور اب تو پتا نہیں کیا حال ہوگا ۔

آیت اللہ محمد حسین نجفی صاحب کی موت سے کچھ لوگ بہت خوش ہیں جن میں غلات کے ساتھ ساتھ کچھ سپر انقلابی لوگ بھی شامل ہیں جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی ایکٹنگ کرتے نظر اتے ہیں۔ ان سپر انقلابیوں کو علمی اختلاف کی بالکل کوئی سمجھ نہیں ہے ۔ انہوں نے بھی مختلف شخصیات کی اندھی تقلید کا علم اٹھا رکھا ہے۔ عنقریب ان شخصیات کے دنیا سے وصال کے بعد جس طرح سے جوتوں میں دال بٹے گی ، وہ منظر بھی دیکھنے سے تعلق رکھنے والا ہوگا

اللہ آیت اللہ محمد حسین نجفی صاحب پر اپنا رحم و کرم فرمائے۔ ساری عمر ایک برجستہ عالم، فقیہ اور مرد مجاہد کی طرح رہے اور اب سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔

ان کی یادیں، باتیں اور کتابیں ہمیشہ اہل علم میں گفتگو کا محور بنی رہیں گی اور علم کے متلاشی ان کے سے استفادہ حاصل کرتے رہیں گے

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم

ابو جون رضا

4

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *