دوہزار بارہ میں اس نام سے پہلی مرتبہ یہ فلم بھارت میں ریلیز ہوئی۔ اس وقت بھی اس فلم کا موضوع بولڈ تھا ۔ یعنی دھرم پر سوال اٹھایا گیا تھا اور اس کے پرچارک افراد جس طرح سے لوگوں کی جیب سے پیسے نکالتے ہیں ، مذہبی رسم و رواج پر کس طرح سے پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ، نعمتوں کی کس قدر ناقدری کی جاتی ہے ، وہ اس فلم کا بنیادی موضوع تھا۔ پاریش راول صاحب کی دکان زلزلہ کے جھٹکے کی وجہ سے گر جاتی ہے اور انشورنس کمپنی اس وجہ سے پیسے دینے سے انکار کرتی ہے کہ یہ “ایکٹ آف گاڈ” ہے۔ مجبور ہوکر پاریش راول صاحب “بھگوان” پر مقدمہ کردیتے ہیں۔
سماج میں پھیلے مسائل کو ایک صحیح انداز سے فلمائی گئی فلم جس طرح سے اجاگر کرتی ہے ، اس طرح سے سو کتابیں بھی شاید نہ کرپائیں۔
مجھے یاد ہے کہ دو ہزار بارہ میں میری برانچ کا رائڈر جو خود مذہبی رسم و رواج میں گھرا ہوا تھا ، اس نے مجھ سے یہ فلم دیکھ کر کہا تھا کہ ہمیں بھی مذہب کے نام پر بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ ہم بھی تو رسم و رواج پر بے تحاشا پیسہ بہاتے ہیں۔
دو ہزار تیئس میں اسی نام سے فلم کا دوسرا حصہ سینما کی زینت بنا ہے۔ اس فلم کا موضوع بھی بہت بولڈ ہے۔ موضوع “سیکس ایجوکیشن” ہے۔
ایک لڑکا جو شہر کے سب سے اچھے اسکول میں پڑھتا ہے اس کا کچھ لڑکے مذاق اڑاتے ہیں کہ تم اصلی مرد نہیں ہو اور بیمار ہو۔ لڑکا اس بات کو سچ سمجھ کر جب انٹرنیٹ پر بیماری کو سرچ کرتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ نامردی کا شکار افراد کو خواتین کبھی منہ نہیں لگاتیں، اور وہ سماج میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔
الجھن کا شکار لڑکا اسکول میں اپنے بائیلوجی کے ٹیچر سے اس حوالے سے سوال کرتا ہے۔ جواب دینے کے بجائے اس کو ڈانٹ پڑتی ہے۔ وہ معصوم لڑکا ایک عطائی ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے جو اسے ایک دونمبر مشین کے زریعے یقین دلاتا ہے کہ اس کو جسمانی بیماری کا سامنا ہے۔ یہ کہہ کر کہ “علاج ہوجائے گا” وہ اس لڑکے سے پیسے بٹورتے ہیں اور اس کو اوٹ پٹانگ دوائیں کھلاتے ہیں۔
لڑکا سارا وقت یا تو دوائیں کھاتا یے یا پھر اسکول کے واش روم میں بیٹھا اپنی “خودی” کو ناپتا رہتا ہے
دواؤں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
وہ لڑکا ایک مالشیے سے تیل بھی خرید لیتا ہے ۔ لیکن اس تیل کی مالش کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔
اسی اثناء میں اسکول کے واش روم میں موبائل فون سے اس بیچارے لڑکے کی وڈیو بنا کر شرارتی لڑکے وائرل کردیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسکول کے پرنسپل وویک نامی اس لڑکے کو اسکول سے نکال دیتے ہیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچتی ہے کہ لڑکا خود کشی کرنے کے لیے ٹرین کی پٹری پر جا کھڑا ہوتا ہے۔
پنکج ترپاٹی اس لڑکے کے باپ ہیں ، وہ اسکول پر کیس کردیتے ہیں کہ اسکول میں آخر اس موضوع پر تعلیم کیوں نہیں دی گئی ؟ اگر دی جاتی تو اج میرے لڑکے کا یہ حال نہ ہوتا۔ اسکول میرے لڑکے کو واپس داخلہ دے اور ایک معافی نامہ لکھے جس کے بعد میرا لڑکا سر اٹھا کر معاشرے اور اسکول میں چل سکے۔
اکشے کمار پچھلی فلم کی طرح اس فلم میں بھی مدد کے لیے تشریف لائے ہیں۔ ان کا رول کچھ جما نہیں کیونکہ وہ مختصر وقت کے لیے اسکرین پر نظر آتے ہیں اور کچھ ڈائیلاگ بول کر چلے جاتے ہیں
یامنی گوتم اسکول کی طرف سے ڈیفینس لائر کا کردار ادا کررہی ہیں اور انہوں نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔
جنس ہماری زندگی کی ایک بہت بڑی حقیقت ہے لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ مشرق میں اس پر بات کرنا شجر ممنوعہ (taboo) کی حیثیت اختیار رکھتا ہے۔
انسان کی جو بائیولوجیکل ضروریات ہیں ان پر بات کرنے پر بھی پہرے ہوں تب بھی فطرت اپنی جگہ بنا لیتی ہے۔ جس کی وجہ سے اور بڑے مسائل جنم لیتے ہیں۔ مشل فوکو، جو خود ایک ہم جنس پرست اور جنس پر چار والیمز پر مشتمل تجزیاتی تاریخ کا مصنف تھا، یہ دلیل دیتا ہے کہ ہم جنس پرستی کا ابھار دراصل انسانی جبلت کو دبانے کا نتیجہ ہے، کیونکہ جس چیز کو بذریعہ طاقت یا آئیڈیالوجی دبایا جاتا ہے وہی چیز مزاحمت کرتی ہے اور یہی مزاحمت تصور کی تشکیل کرتی ہے
اگر مہذب اور سلجھے ہوئے انداز میں نوجوانوں کے جنسی مسائل میں ان کی رہنمائی کی جائے ، جس کا مقصد ایجوکیشن ہو نہ کہ زنا اور فحاشی کا فروغ ، تو تیسری دنیا کے ممالک کی نئی پود کے ذہن کو بگڑنے سے بچایا جاسکتا ہے اور ساتھ ساتھ عطائی ڈاکٹروں سے بھی نوجوان نسل کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
ابو جون رضا
نوٹ : مولوی حضرات خاص کر آیت اللہ عقیل الغروی صاحب کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے۔ انہوں نے اسی سال محرم میں انگلینڈ میں اسکولز میں دی جانے والی سیکس ایجوکیشن کے خلاف پوری مجلس پڑھ ڈالی تھی جس پر حقیر نے ایک بلاگ تحریر کیا تھا جو میری وال پر موجود ہے۔