تصور زمان اور مذہبی بدحواسیاں

تاریخ کا مطالعہ ماضی کی اقوام کی سرگزشت بتاتا ہے۔ اساطیری کہانیوں سے انسان خیالات بنتا ہے اور ایک دوسرے جہاں میں وارد ہوتا ہے۔ حضرت علی نے بھی اپنے فرزند سے اس بات کا ذکر کیا کہ جب انہوں نے پچھلی اقوام کی تاریخ کا جائزہ لیا تو ان کو ایسا لگا جیسے وہ انہی میں شامل ایک فرد ہیں۔

انسان نے ہمیشہ خواب دیکھا ہے کہ وہ ماضی میں جائے اور اپنی غلطیوں کو درست کرکے واپس آجائے۔ جب ہم زمان و مکان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا یے کہ زمان مسلسل بہاؤ میں ہے ۔ جو لمحہ گزر گیا وہ پلٹ نہیں سکتا۔ اگر کوئی لمحہ ماضی میں مقدس تھا تو وہ آج اسی طرح سے مقدس نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ آج کا لمحہ مطلق طور پر ایک نیا لمحہ ہے۔

انسان نے فقط اپنی سہولت کے لیے مختلف کیلنڈرز بنائے اور دنیا کی مختلف تہذیبیں ، مذاہب اور اقوام نئے برس کا آغاز اپنی تہذیب، مذہب، روایات وغیرہ کے داخلی تقاضوں کے تحت کرتی رہی ہیں۔

ایک مثال سے سمجھیے۔

جس لمحے انسان پیدا ہوتا ہے، وہ اگلے برس اسی تاریخ کو کبھی دوبارہ پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی قتل ہونے کے بعد دوبارہ اس لمحے واپس آکر قتل ہوتا ہے۔

ماضی کی مقدس ہستیوں سے وابستہ تصورات میں یہ ایک گھمبیر قسم کا التباس ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر سال ماضی کی فلاں شخصیت جس دن قتل ہوئی تھی اسی دن اس کو دوبارہ سے تکلیف ہوتی ہے۔ اس کے گھر والے جو دنیا سے چلے گئے وہ آج بھی خود پر ڈھائے گئے ظلم کو یاد کرکے روتے پیٹتے ہیں۔ اگر ہم بھی ساتھ ساتھ روئے پیٹیں گے تو ان کی روحوں کو خوشی ملے گی۔ اگر ہم اس دن اچھے شوخ کپڑے پہن لیں گے تو یہ ان پر ظلم ہوگا وغیرہ۔

ان تصورات سے وابستہ لوگ ہر سال مختلف ایام میں بدحواسیاں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ خاص کر مذہبی طبقہ اس حوالے سے بہت جذباتیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہ طبقہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا بلکہ اس میں سے رسمیں کشید کرتا ہے۔

یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے جس کو سمجھنے کے لیے بہت اعلی فلسفیانہ دماغ کی ضرورت ہے۔ یہ معمولی غور فکر سے سمجھ میں آجانے والی چیز ہے۔

یاد رکھیے جو انسان جس لمحے قتل ہوا، جو انسان جس لمحے پیدا ہوا، وہ لمحہ کبھی واپس نہیں آسکتا۔

اگر کچھ ”مقدس“ تھا تو وہی لمحہ، نہ کہ اگلے برس کا اسی تاریخ میں متعین ہوا کوئی لمحہ، کیونکہ زمان بہاؤ میں ہے اور زمان کو روکنا ناممکن ہے۔ایک سیکنڈ پہلے والا لمحہ ایک سیکنڈ بعد والے لمحے میں کبھی واپس نہیں آ سکتا اور نہ ہی وہ پہلے لمحے سے کوئی مماثلت رکھتا ہے۔

لہذا فلسفیانہ سطح پر یہ ساری تقدیس جو مختلف ایام سے وابستہ کی جاتی ہے یہ ہر سال صرف مختلف رسموں کے احیاء کا باعث بنتی ہے اور ان سے کسی قسم کی تقدیس وابستہ کرنا اعلی درجہ کی حماقت کہی جاسکتی ہے۔

عقلیت پرست بنیے ورنہ مذہبی بدحواس تو یہاں ہر جگہ پائے جاتے ہیں

ابو جون رضا

4

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *