گیم آف تھرون کے سیزن فور میں ڈینیریس ٹائیگیرین ایک قلعے پر قبضہ کرتی ہے۔ اس قلے میں ایک لاکھ سے کچھ اوپر افراد رہتے تھے جن میں سے صرف ڈیڑھ سو افراد امراء طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور باقی تمام لوگ یا تو غلام تھے یا پھر بہت غریب تھے ۔ ان سب پر یہ گنتی کے چند لوگ حکومت کرتے تھے اور ان پر ظلم کیا کرتے تھے ۔
ڈینیریس ٹائیگیرین اس قلعے پر قبضہ کر کے سب غلام مرد عورتوں کو آزاد کردیتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ آج کے بعد کوئی انسان کسی دوسرے انسان کی غلامی نہیں کرے گا۔
کچھ ہی دن بعد ڈینیریس ٹائیگیرین کے سامنے جو اس وقت قلعے پر حاکم بنی بیٹھی ہوتی ہے ، ایک مسئلہ پیش ہوتا ہے۔
ایک غلام ڈینیریس کے دربار میں پیش ہوکر کہتا ہے کہ آپ نے قلعے پر قبضہ کرکے ہم سب کو آزاد کردیا، اس کے لیے میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں مگر اب مسئلہ یہ آیا ہے کہ پہلے ہم اپنے ماسٹرز کے گھروں میں ان کے ساتھ رہتے تھے۔ میں ایک پڑھا لکھا شخص ہوں اور میں اپنے آقا کے بچوں کو پڑھاتا تھا۔ اس وجہ سے میرے آقا کے گھر میں میری بہت عزت تھی اور مجھے کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی۔ جب سے آزادی ملی ہے ہمارے سرسے چھت چھن گئی ہے۔ ہمارے کھانے پینے کا بندوبست ہمارے آقا ہی کیا کرتے تھے۔ اب یہ آسراء بھی ختم ہوگیا ہے۔
ڈینیریس اس سے کہتی ہے کہ میں نے شہر میں شیلڑ کیمپس بنوائے ہیں۔ آپ وہاں جاکر رہ لیں۔ وہاں آپ کو کھانے پینے کی سہولت مل جائے گی۔
وہ غلام کہتا ہے کہ ان کیمپس میں طاقتور غلاموں کی اجارہ داری ہے ۔ ہم کمزور یا بوڑھے افراد ان کے آگے بے بس ہیں۔
ڈینیریس ٹائیگیرین اس سے پوچھتی ہے کہ پھر آپ کیا چاہتے ہیں؟ وہ غلام جواب دیتا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھے میرے ماسٹر کے پاس واپس جانے دیں۔
ڈینیریس حیران ہوتی ہے کہ تم آزادی کے بدلے غلامی طلب کر رہے ہو تو وہ کہتا ہے کہ اس آزادی سے غلامی بہتر ہے اور یہ مجھ اکیلے کا مطالبہ ہی نہیں ہے بلکہ آپ کے دربار کے باہر بہت سارے لوگ یہ درخواست لیکر آئے ہوئے ہیں۔
ڈینیریس عجیب مخمصے میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ وہ غلامی کا خاتمہ چاہتی ہے مگر غلام خود آزاد ہونا پسند نہیں کررہے تھے ۔ تھوڑی سوچ بچار کے بعد وہ اس شرط پر لوگوں کو واپس ان کے ماسٹرز کے پاس واپس جانے دیتی ہے کہ ہر غلام اپنے آقا کے ساتھ ایک کانٹریکٹ کرے گا جو ایک سال سے زیادہ کا نہیں ہوگا اور ہر سال وہ کانٹریکٹ ری نیو ہوا کرے گا۔
رسول اکرم کے زمانے میں بھی غلام اور کنیزیں رکھنا معاشرے میں ایک عام بات تھی۔ اسلام آنے کے بعد یکایک غلاموں کا خاتمہ معاشرے سے ممکن نہ تھا۔ اس لیے اسلام نے جو معروضی حالات تھے ان کے حوالے سے فیصلے کیے اور کچھ پیش بندیاں جیسے قانون مکاتبت متعارف کروا کر غلاموں کو آزادی حاصل کرنے کی راہ کھول دی۔ کنیز مالک کے مرنے پر آزاد ہوجاتی تھی ۔ اور اس کی اولاد بھی غلام تصور نہیں کی جاتی تھی۔ ایک خلیفہ راشد نے حضرت مالک بن انس کو مجبور کیا کہ وہ اپنے غلام کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں جو کسی زریعے سے پیسہ مہیا کرکے آزادی حاصل کرنا چاہ رہا تھا۔
قران کریم نے سورہ البد میں ایک گھاٹی کا ذکر کیا ہے جس سے وہی خلاصی پائے گا جو کسی غلام کو آزاد کرے یا کسی یتیم و مسکین کو کھانا کھلائے
وَمَآ اَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ (12)
اور آپ کو کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے۔
فَكُّ رَقَبَةٍ (13)
گردن کا آزاد کروانا
آج کل کے دور میں جب غلام نہیں پائے جاتے ، کسی جہالت کے شکار شخص کو عقل و خرد کی دولت سے نوازنا اور علم کی روشنی سے مالا مال کرنا ، غلام آزاد کرنے کے مترادف قرار دیا جاتا ہے۔
اللہ ہمیں عقل و خرد کی دولت عنایت فرمائے۔
ابو جون رضا