علماء کی رائے :
اس معاملے میں بعض علماء نے اس رائے کو اختیار کیا ہے کہ امام حسین نے حج تمتع کا ارادہ کیا اور مجبوری کی وجہ سے عمرہ ادا کر کے احرام سے محل ہوگئے۔
شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں لکھا ہے
“جب امام حسین (ع) نے عراق جانے کا فیصلہ کیا تو خانہ کعبہ کے گرد طواف کیا، صفا اور مروہ کے مابین سعی کی، اور اپنے احرام سے خارج ہوگئے اور اسے عمرہ قرار دیا۔ کیونکہ حج ادا کرنے پر قدرت نہیں رکھتے تھے۔ اس خوف سے کہ کہیں انہیں مکہ میں گرفتار کرکے یزید بن معاویہ کی طرف نہ بھیجا جائے ۔ لہذا امام اپنے گھر والوں اور شیعوں کے ساتھ مکہ چھوڑ گئے۔”
(شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ص۶۶)
طبرسی نے اعلام الوری، مؤسسه آل البیت، ج۱، ص۴۴۵ اور آیت اللہ مرتضی عسکری نے معالم المدرستین، ج۳َ ص۵۷ میں اس رائے کی طرف رجحان ظاہر کیا ہے۔۔
جبکہ دوسرے رائے اس ضمن میں علماء کی یہ ہے کہ امام حسین نے عمرہ مفردہ کی نیت کی تھی اور ان کا حج کا ارادہ نہیں تھا۔
آیت اللہ جواد عاملی لکھتے ہیں۔
“خاندان سید الشہدا نے مدینے سے مکے کی جانب سفر کے آغاز میں ہی عمرہ مفردہ کی نیت کی تھی۔ حج تمتع کا قصد نہیں کیا تھا۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ حسین ابن علی بن ابی طالب حج تمتع کے قصد سے مکہ گئے ہوں۔ اور پھر بدنام زمانہ اموی حکومت کے دباؤ میں آکر حج تمتع کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کرلیا ہو۔ روایات میں ایسی کوئی بات ملتی ہے اور نہ ہماری فقہ میں۔ مقاتل میں اس مطلب کی جانب اشارہ ملتا ہے۔ ہمارے بزرگان فقہ بھی اس نکتہ کی طرف متوجہ رہے ہیں کہ اس بات کی کوئی روائی بنیاد ہے اور نہ فقہی۔ بلکہ حسین ابن علی بن ابی طالب کا شروع سے ہی عمرہ مفردہ کا قصد تھا۔ وہ منی نہیں گئے لیکن قربانی دی ہے”
(اسرار حج از آیت اللہ جواد عاملی ، پانچویں فصل، عرفات اپنے آپ سے ہجرت کی سرزمین)
اس کی دلیل میں محققین اس خواب کو بھی پیش کرتے ہیں جو امام حسین نے مدینے سے نانا کی قبر سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا تھا جس میں پیغمبر اکرم نے آپ سے فرمایا تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ عنقریب آپ کو کربلا نامی سرزمین پر ذبح کیا جائے گا۔
(شیخ صدوق، الامالی،ص۱۵۲ ؛ شریف قرشی، حیاة الامام الحسین، ص۲۵۹)
ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ مدینہ سے مکہ تک امام کی نقل و حرکت حج کے مہینوں یعنی شوال ذیقعدہ اور ذی الحج میں نہیں بلکہ عمرہ کے مہینوں یعنی رجب اور شعبان میں ہوئی۔
(ابومخنف، مقتل الحسین، ص۶۲-۶۸)
امام حسین کی روانگی سے تین دن پہلے ابن عباس، محمد حنفیہ اور دیگر لوگوں سے گفتگو ہوئی اور انہوں نے اصرار کیا کہ امام عراق جانے سے باز رہیں۔
(دینوری، الاخبار الطوال، ص۲۴۳-۲۴۵)
امام حسین نے روانگی سے ایک دن پہلے فرمایا:
“میں کل صبح روانہ ہوں گا، انشاء اللہ”۔
اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام نے حج پر جانے کا ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ عراق کے سفر کی تیاری کر رکھی تھی۔
(ابومخنف، مقتل الحسین، ص۶۴)
فقہی نظر :
ترویہ کے دن امام حسین (ع) کی مکہ سے روانگی کو فقہاء نے مختلف انداز سے دیکھا ہے۔
جیسا کہ حج کے متعلق بحثوں میں سے ایک بحث یہ ہے کہ آیا عشرہ ذی الحجہ میں کسی شخص کو مکہ سے نکلنے کی اجازت دی جائے؟
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جو شخص مکہ میں داخل ہو وہ ذی الحجہ تک مکہ میں رہے تو وہ مکہ سے باہر نہیں جا سکتا اور اسے قیام اور حج کرنا چاہیے۔
(حر عاملی، وسائل الشیعة، ج ۱۴، باب ۷، ص۳۱۲)
بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ کوئی شخص ذوالحجہ کے پہلے عشرے میں مکہ سے نکل سکتا ہے، چاہے کوئی ہنگامی حالت نہ ہو۔
(جواد تبریزی، التهذیب، ج۱، ص۳۲۹)
فقہاء کی طرف سے بیان کیے گئے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ آیا نیت بدلنا ممکن ہے یا نہیں؟
بعض فقہاء کہتے ہیں کہ نیت کو بدلنا ممکن نہیں ہے، اس لیے یہ بیان کہ امام حسین (ع) نے عمرہ تمتع سے عمرہ مفردہ کی نیت بدل دی، اصول فقہ کے مطابق نہیں ہے۔
(مصباح یزدی، العروة الوثقی، ج۲، ص۵۴۱)
امام خمینی لکھتے ہیں
جس حاجی کو دشمن یا کوئی اور حج سے روکے تو حج کے احکام کے مطابق ایسا شخص اسی جگہ پر اونٹ، گائے یا بھیڑ کی قربانی کر سکتا ہے اور تقصیر کر کے احرام سے باہر نکل سکتا ہے۔
(امام خمینی، تحریر الوسیله، ج۱، ص۴۵۸، مناسک حج با حواشی مراجع معاصر، ۱۳۸۲ش، مسائل ۱۳۷۰ و ۱۳۷۲)
البتہ امام حسین کے حج میں قربانی کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ جس سے پتا چلے کہ آپ نے حج کو عمرہ میں بدل دیا تھا ۔ جیسا کہ مقتل ابو مخنف کی روایت سے بھی اندازہ ہوتا یے۔
آیت اللہ سید محسن حکیم نے تقریرات کتاب مستمسک العروة، ج۱۱، ص۱۹۲، آیت اللہ خوئی المعتمد ج۲، ص۲۳۶،
آیت اللہ گلپایگانی تقریرات البیع، اصدار الثالث ج۱، ص۳۵۵ اور محقق نجفی نے جواهر الکلام، ج۲۰، ص۴۶۱ میں یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ترویہ کے دن امام حسین کی مکہ مکرمہ سے عراق روانگی گھبراہٹ یا مجبوری کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ انہوں نے پہلے عمرہ مفردہ ادا کیا تھا۔
روایات پر ایک نظر :
“امام جعفر صادق (ع) سے کسی ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے حج کے مہینوں میں ایک ہی عمرہ کیا اور پھر اپنے شہر کو لوٹا۔ امام نے فرمایا:
جائز ہے. حسین بن علی (ع) ترویہ کے دن عراق گئے تھے۔ جبکہ عمرہ مفردہ ادا کیا تھا”
یہ روایت دو سندوں کے ساتھ آئی ہے: شیخ طوسی نے کتاب الاستبصار جلد 2، صفحہ 327 میں صحیح طرق سے اسے روایت کیا ہے۔
شیخ کلینی نے کتاب الکافی جلد 4 صفحہ 535 میں دوسری طرق سے اسے روایت کیا ہے ۔ اس کی سند بھی معتبر ہے۔
امام حسین کا 8 ذوالحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ سے عراق روانہ ہونا سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ حج کا اغاز مکہ میں احرام باندھ کر عرفات میں وقوف سے ہوتا ہے۔
ایک اور صحیح روایت سے بھی اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
“معاویہ بن عمار بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ حج تمتع اور عمرہ مفردہ ادا کرنے والے میں کیا فرق ہے ؟
امام نے فرمایا،
عمرہ تمتع ادا کرنے والا حج سے وابستہ ہے (یعنی حاجی اس کی ادائیگی سے پہلے کہیں نہیں جا سکتا) لیکن عمرہ مفردہ ادا کرنے والا جب فارٖغ ہوجائے تو جہاں چاہے جا سکتا ہے. جیسا کہ امام حسین نے ذی الحج میں عمرہ مفردہ ادا کیا اور 8 ذی الحجہ ترویہ والے دن عراق تشریف لے گئے ۔ جبکہ لوگ منیٰ جا رہے تھے اور جو شخص حج نہ کرنا چاہے اس کے لئے ذی الحج میں عمرہ مفردہ ادا کرنے میں کوئی مصائقہ نہیں ہے”
(کلینی، الکافی، ج۴، ص۵۳۵، شیخ طوسی، الاستبصار، ج۲، ص۳۲۸)
خلاصہ کلام :
روایات اور فقہاء کے کلام کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام حسین کی ابتداء سے ہی عمرہ مفردہ انجام دینے کی نیت تھی اور آپ نے حج کو عمرہ سے تبدیل نہیں کیا تھا۔
ابو جون رضا
(اس پوسٹ کا انتساب میرے استاذ جناب جواد حسین رضوی کے نام، گر قبول افتد زہے عزو شرف)
Your WhatsApp number please