غلامی اور مذاہب

مجھے کبھی بھی غلامی کے حوالے مذہب کا موقف ہمیشہ کمزور ہی نظر آیا ہے۔ جو بیانیہ ہمارے دور میں ایک مستحکم شکل میں سامنے آیا یے وہ یہ ہے کہ غلامی اپنے ذات میں ایک برائی (intrinsic Evil) ہے بلکہ غلامی انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔ اس تحریک کے بعد مسلمانوں سمیت تمام مذاہب کے ماننے والوں کے سامنے غلامی سے متعلق اخلاقی سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔

میں نے کتابوں میں غلاموں کی حالتوں کے بارے میں پڑھا ہے۔ لیکن اس کو درست طور نیٹ فلیکس کے ایک سیزن کو دیکھ کر ہی سمجھ پایا تھا۔ غلام یا کنیزیں ایک ایسے کھلونے کی مانند ہوتے تھے جن کی ڈوریاں مالک کے ہاتھ میں ہوتی تھیں۔ ان کو بازار سے خریدتے وقت ایک جانور کی طرح ہی ٹٹولا جاتا تھا۔

غلامی سولہویں صدی تک رائج رہی ہے اس کے بعد اس کو غیر قانونی قرار دینے کی تحریک چلی ۔ 1834 میں برطانیہ نے سب سے پہلے غلامی کا خاتمہ کیا۔ اس سے پہلے کوئی اسلامی یا غیر اسلامی سلطنت قانونی طور پر اس کام کو ناجائز قرار نہیں دے سکی۔

اگر ہم انبیاء کی شخصیات کا مطالعہ کریں تو ہمیں ان میں خود انحصاری کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے ۔ یہ اپنے کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے اور بہت اعلی اخلاق کے حامل لوگ ہوتے تھے ۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ جنگوں میں جو عورتیں کنیز بنائی جاتی تھیں یہ لوگ ان سے استفادہ کرتے تھے ۔ اور ان سے اولاد بھی پیدا کرتے تھے۔

مسلمانوں کو انبیاء کے ساتھ ساتھ صحابہ اور اہلبیت کا دفاع کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اس وجہ سے فرض کریں اگر وہ انبیاء جیسی شخصیات کو غلام رکھنے کے عمل سے مستثنیٰ بھی ثابت کردیں تب بھی ان کے حواریوں کو اس کام سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جو ساری روایات اور تاریخ کو جھوٹا قرار دیکر ہاتھ جھاڑ کر بیٹھ جائے۔

مذاہب پر اعتراض کرنے والے اس معاملہ کو شد و مد سے پیش کرتے ہیں کہ کسی مقدس شخصیت نے کبھی اس فعل کو برا نہیں کہا اور کبھی انسان کو اپنی غلامی میں لینے کے عمل کی مذمت نہیں کی۔

ڈاکٹر جوناتھن براؤن نے اس موضوع پر کتاب لکھی ہے جس میں بہت دقیق انداز میں غلامی کے ادوار اور مختلف تہذیبوں میں اس کے اثرات اور پھیلاؤ کا جائزہ لیا ہے ۔

پروفیسر براؤن کے مطابق ہم بحثیت مسلمان جب قران اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس میں غلاموں اور لونڈیوں سے متعلق احکامات پڑھتے ہیں تو ہمارے سامنے یہی اخلاقی سوال کھڑا ہوجاتا ہے اور ہم سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قران اور حدیث میں غلامی کی بات تو کی جارہی ہے لیکن اسکو ایک برائی یا حرام کام کے طور بیان نہیں کیا جاتا۔ اس صورتحال میں مسلمانوں کے ذہن میں اضطراب اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔

اس سوال کا ایک عمومی جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اسلام غلام اور لونڈیوں کے ساتھ اچھے سلوک بلکہ انکی آزادی کی بات بھی کرتا ہے۔ لیکن یہ جواب اطمینان بخش نہیں کیونکہ اصل سوال یہ ہے کہ اگر سارے پیغمبر اخلاق کا اعلی نمونہ تھے تو انہوں نے غلام کیوں رکھے اور اس برائی کا خاتمہ کیوں نہیں کیا اور یہ کہ قران و سنت میں غلاموں کو رکھنے کی بات کیوں کی جارہی ہے؟ کیونکہ یہ بات مان لی گئی ہے کہ غلامی اپنے ذات میں ہر حال اور ہر دور میں ایک برائی ہے اور جس نے بھی اس برائی کے ساتھ کمپرومائز کیا یا اسکو گوارا کیا اسکی اخلاقی حیثیت داغدار ہے۔

اہل مذہب نے اس سوال کا جواب مختلف طریقے سے دیا ہے۔ایک جواب تو یہ ہے کہ غلامی اسلام سے پہلے موجود تھی اور اسلام نے غلامی کا اغاز نہیں کیا بلکہ غلاموں کے بہت سارے حقوق متعین کیے اور معاشرے میں انکا مقام بلند کرنے کے لیے اقدامات کیے اور غلاموں کی آزادی کی ایک پوری تحریک چلائی۔

اس جواب پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ دین اگر اللہ کی طرف سے ہے اور پیغمبر تمام برائی کو ختم کرنے اتے ہیں تو انہوں نے اس برائی کا خاتمہ کیوں نہیں کیا؟ یعنی اگر اسلام پچھلے انبیاء پر ایمان لانے کی بات کرتا ہے تو ان کے عوامل سے یہ کہہ کر پیچھا نہیں چھڑا سکتا کہ یہ تو ان کے مذہب میں رائج تھا ۔ ہم تو اسلام کی بات کریں گے۔

ایک دوسرا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ ٹھیک ہے کہ یہ ایک برائی ہے اور اسلام نے غلاموں کی آزادی کی تحریک شروع کی اور دوسرے اقدامات کرکے غلامی کا راستہ روکا اور ہمیں ایک ایسے راستے پر ڈالا کہ اخرکار ہم اسکے خاتمے کے کی پوزیشن میں آجائینگے۔

اس جواب پر جو اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر پیغمبر اس دنیا میں آئے کہ نیکی کو پھیلائیں اور برائی کو روکیں تو یہ انکی ناکامی ہے کہ وہ ایک بہت بڑی برائی کو ختم کرے بغیر اس دنیا سے چلے گئے۔

یعنی اگر ابراہم لنکن اسکوختم کرسکتا ہے تو پیغمبر اس برائی کو ختم کرنے میں کیوں ناکام رہے؟

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر اس کو ایک دفعہ ختم کرنا ممکن نہیں تھا تو یہ تو کہا جاسکتا تھا کہ ٹھیک ہے ہم اس کو اس وقت ختم نہیں کرسکتے لیکن یہ ایک بہت بڑا جرم ہے اور اسکو جب ممکن ہو ختم کیا جائے۔ اسلام نے تو سود اور شراب وغیرہ کو بھی تدریجا ختم کیا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ شراب اور سود کو متعین طور پر حرام قراردیا گیا اور اس میں جو ملوث ہو اسکو گنہگار/مجرم بھی قرار دیا گیا۔

لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ غلامی سے متعلق ایسے کوئی احکامات موجود نہیں اور یہ تمام پیغمروں اور مذاہب پر ایک بڑا سوال ہے خصوصا جبکہ اس دین کا دعوی ہے کہ اسکی تعلیمات ہر دور کے لیے ہیں۔ یہ اعتراض اور بھی اہم ہوجاتا ہے جب اسلام کا دعوی ہے کہ اس نے پچھلے احکام کو منسوخ کردیا اور یہ آخری ہدایت ہے۔

پروفیسر براون کے مطابق یہ ایک مشکل صورتحال ہے جسکو وہ Slavery conundrum یا غلامی کا معمہ (یا الجھن) کہتے ہیں۔ اس معمے کے بنیاد تین بنیادی نکات پر ہے۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ غلامی اپنے ذات میں ہر دور اور حالت میں ایک برائی ہے اور ایک بڑا جرم ہے۔یعنی غلامی جس طرح آج ایک برائی ہے یہ دو یا تین یا چار یا پندرہ سو سال پہلے بھی ویسی ہی برائی تھی۔ جس طرح آج کسی کو غلام بنانا غلط ہے ایسا ہی پہلے زمانے میں کسی کو غلام بنانا غلط تھا۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ غلامی اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ غلامی غلامی ہوتی ہے۔

تیسرا نکتہ یہ ہے کہ ہمارے ماضی اور اس ماضی سے تعلق رکھنے والوں بڑے بڑے لوگوں کا ہمارے اوپر کسی نہ کسی صورت میں ایک اخلاقی برتری یا اتھارٹی حاصل ہے۔ ان تینوں نکات کو ایک وقت میں ماننا ناممکن ہے یعنی ان میں سے ایک نکتے سے لازما دستبردار ہونا پڑے گا۔ یعنی یا تو آپ غلامی کو ہر دور اور ہر حال میں برا ماننے سے دستبردار ہونگے یا یہ کہنے پر مجبور ہونگے کہ ہماری والی غلامی دوسری قسم کی غلامی سے بہتر تھی یا پھر یہ بات تسلیم کریں گے کہ ماضی میں اگر کسی نے غلامی کو گوارا بھی کیا ہے اور غلام اور لونڈی بنانے کے طریقہ کار میں شامل رہے ہیں تو ان کو ہیرو یا اعلی شخصیت کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

پروفیسر براون کے مطابق اس معمے کا سامنا مسلمان سمیت تمام مذاہب کو ہے چاہے وہ عیسائیت ہو، یہودیت ہو، بدھ مت ہو یا کوئی غیر مذہبی فلسفیانہ تہذیب۔

پروفیسر براؤن کے مطابق اس صورتحال کے پیچھے اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں سولہویں صدی تک ایک بھی ایسی فلاسفیکل یا مذہبی روایت موجود نہیں جس نے کسی نہ کسی صورت میں غلامی کو قبول نہ کیا ہو اسکا دفاع نہ کیا ہو یا اس کو اپنے ذات میں برائی (intrinsic Evil) قرار دیا ہو.

پروفیسر براؤن اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ میں نے اس پر کافی ریسرچ کی ہے اور یہ بات میں بہت اعتماد سے کہتا ہوں کہ سولہویں صدی کے اوائل سے پہلے ایک بھی ایسا شخص یا تہذیب نہیں جس پر غلامی کا داغ نہ ہو۔ اب اگر ہم اپنے پہلے نکتے کی بات کریں تو ہم (چاہے مسلم ہو، ہندو ہویا عیسائی یا امریکی ہو) اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ غلامی کے تعلق سے اپنے تمام ماضی کو مسترد کردیں۔

پروفیسر عمیر جو ہمارے نیٹ فرینڈ ہیں ان سے اس موضوع پر میری گفتگو رہی ہے ۔ وہ یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر لیتے ہیں کہ اسلام نے غلامی ختم کرنے کا کریڈٹ نہیں لیا۔ حالات کے حساب سے جو سب بہتر فیصلے تھے وہ اختیار کیے۔ پھر وہ غلامی کی ایک یونیورسل تعریف کی طرف چلے جاتے ہیں جس سے معاملہ سلھجنے کے بجائے اور الجھ جاتا ہے۔

ایک پوائنٹ یہ بھی متعرضین کے حوالے سے اٹھایا جاتا ہے کہ جب لوگوں کے پاس پیسہ آتا ہے تو ساتھ میں عیاشی کے سامان بھی اکھٹا کیے جاتے ہیں۔ غلام اور کنیزیں عیاشی کے سامان تھے جو گھر کے اندر اور باہر کے کام کیا کرتے تھے اور خاص کر کنیزیں جسمانی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوا کرتی تھیں۔ اس وجہ سے غلام تو پھر بھی شاید نہ رکھے جائیں مگر کنیزیں رکھنے سے بڑی سے بڑی مقدس ہستی بھی محفوظ نہ رہی اور انہوں نے لاکھوں روپے خرچ کر کے کنیزیں خریدیں اور ان سے استفادہ کرنے کے علاوہ ان کو تحفے کے طور پر بھی اقرباء میں تقسیم کیا۔

یہ بات بہرحال درست ہے کہ زمان و مکان کے حوالے سے جو معروضی حالات تھے اسلام نے ان کے حوالے سے فیصلے کیے اور کچھ پیش بندیاں جیسے قانون مکاتبت متعارف کروا کر غلاموں کو آزادی حاصل کرنے کی راہ کھول دی۔ کنیز مالک کے مرنے پر آزاد ہوجاتی تھی ۔ اور اس کی اولاد بھی غلام تصور نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن یہ بات بھی درست یے کہ دنیا سے غلامی کا خاتمہ اسلام نے نہیں کیا۔

(اس مضمون کی تیاری کے لیے اپنے استاذ گرامی جناب عمار ناصر اور مدرسہ ڈسکورسز کا شکر گزار ہوں)

ابو جون رضا

3

2 thoughts on “غلامی اور مذاہب”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *