طوفان اور عقیدے

دنیا بھر میں ساحلی علاقوں پر طوفان ،بارشوں اور سیلابی صورتحال کا خدشہ ہر سال مخصوص مہینوں میں پیدا ہوتا ہے۔ حکومتیں ان سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرتی ہیں اور اپنے شہریوں کے لیے ہدایات جاری کرتی ہیں۔

ہمارے ملک میں سندھ کے ساحلی علاقوں میں ہر سال سیلابی صورت حال سے بے تحاشہ نقصانات ہوتے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں بارشوں سے سڑکیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ نالے ابل جاتے ہیں اور سڑکوں پر ہفتوں پانی کھڑا رہتا ہے۔ بارشوں میں بجلی کے تار گر جاتے ہیں۔ کرنٹ لگنے اور دیواروں کے گرنے سے ہر سال متعدد لوگ مرجاتے ہیں

ہم بچپن سے سنتے آئے کہ کراچی قیامت سے چالیس سال پہلے ڈوب جائے گا اور یہ صرف کسی سمندری بابا کی کرامات ہیں جن کی وجہ سے کراچی شہر کی طرف بڑھتے طوفان اپنا رخ موڑ کر کسی دوسری طرف چلے جاتے ہیں اور کراچی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ لیکن بابا کی عین ناک کے نیچے صوبائی حکومت شہر کو کھنڈر بنانے کا کام بخوبی جاری رکھے ہوئے ہے ۔

اس سال بھی بپر جوائے نامی سمندری طوفان قریب ڈیڑھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی تیز رفتار ہواؤں اور 35 سے 40 فٹ کی لہروں کے ساتھ پاکستان کے جنوب مشرقی ساحلی علاقوں کی جانب رواں دواں ہے۔

اپنی قبر کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر سال سمندری بابا طوفان کا رخ موڑ دیتے ہیں اور وہ کسی دوسرے علاقے یا ملک جیسے انڈیا میں گجرات کی ساحلی پٹی سے ٹکرا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ان علاقوں میں ہر سال تباہی مچتی ہے۔ لوگ بے گھر ہوتے ہیں اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں۔

کمال بات یہ ہے کہ بابا کی طاقت طوفان کا رخ موڑنے کی حد تک محدود رہتی ہے ۔ جب وہ اپنا رخ موڑ لیتا ہے تو پھر بابا کو اس سے کوئی غرض نہیں رہتی کہ دوسرے علاقوں میں اس کی وجہ سے کتنے حادثات رونما ہونگے۔

ایک سال مجھے یاد ہے کہ اسی طرح سے کسی خوفناک طوفان کی آمد کی خبر اخبارات اور نیوز چینلز پر چلی تھی۔ ایک صاحب نے مجھے بتایا کہ یہ طوفان بہت خطرناک ہے اور اگر یہ کراچی پہنچ گیا تو کراچی مکمل طور پر ڈوب جائے گا۔ انہوں نے اس کے علاوہ مجھے یہ بھی بتایا کہ سمندری بابا کسی مولانا کے خواب میں آئے تھے اور انہوں نے کہا اس دفعہ معاملہ میرے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اب صرف وہی ہستی اس طوفان سے شہر کو بچا سکتی ہے جس کی پانی پر حکومت ہے. میں نے پوچھا کہ وہ ہستی کون ہے؟ تو انہوں نے بڑے جذب سے فرمایا کہ حضرت عباس ہی وہ شخصیت ہیں جن کی پانی پر حکومت ہے ۔ میں نے پوچھا کہ پھر ان شخصیت کو کیسے راضی کیا جائے تاکہ وہ ہمیں طوفان سے بچائیں؟ ان صاحب نے عالمانہ شان سے فرمایا, “مولا عباس کی نذر دلائی جائے تاکہ وہ ہمیں طوفان سے محفوظ رکھیں”

میں نے سوچا پوچھوں کہ ایک گلاس پانی پر نذر دلانا کافی ہوگا؟ کیونکہ بچپن سے اب تک سیرت اور احادیث کی ڈھیر ساری کتابیں پڑھ کر بھی مجھ بھولے انسان کو یہ پتا نہیں چل سکا کہ یہ مقدس ہستیاں کیا کھانا پسند کرتی ہیں؟ لیکن پھر خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔

خیر مجھ گناہ گار کے نذر دلائے بغیر طوفان کا رخ مڑگیا اور اس نے کسی دوسرے ساحلی علاقے کی پٹی سے ٹکرا کر وہاں تباہی مچا دی۔ جو لوگ زیر عتاب آئے وہ یقیناً آل رسول کے معجزات کے منکر ہونگے ورنہ ان کے ساتھ برا کیوں ہوتا؟

عجیب بات ہے کہ مقدس ہستیاں جب زندہ تھیں تو خود اپنی مدد نہیں کرسکیں اور وہ کھانا پانی کو ترستے ہوئے دنیا سے چلی گئیں لیکن دنیا سے جانے کے بعد انہوں نے نعوذباللہ، خدا کو ہٹا کر اس کے سنگھاسن پر قبضہ جما لیا اور لوگوں کی زندگی و موت کے فیصلے کرنے لگیں۔

سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ۔

“جو کچھ یہ بیان کر رہے ہیں اس سے اللہ بالکل پاک ہے”

ابو جون رضا

3

2 thoughts on “طوفان اور عقیدے”

  1. مبشر حسن

    کل ایک شیعہ دوست نے پوسٹ کی ہوئی تھی کراچی کو طوفان سے بچانے کے لیے ہمارے بابا صاحب کافی ہیں
    تو میں نے کومیٹ کر دیا کہ پچھلے سال جب پورا سندھ سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا اس وقت بابا صاحب کہاں تھے

    یہ کومیٹ کرنا تھا گالیوں کا بازار گرم ہو گیا بہت کچھ سننا پڑا ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *