مجھے ایک عالم دین نے ایک وڈیو بھیجی۔جس میں بتایا گیا ہے کہ ہر سال امام رضا کی ولادت کے موقع پر کچھ لوگوں کو جیل سے رہا کیا جاتا ہے۔ جس طرح سے چودہ اگست وغیرہ پر ہمارے ملک میں بھی قابل معافی مجرموں کو رہا کیا جاتا ہے۔ ایران میں اس دفعہ مذہب اور مقدسات کا سہارا لیا گیا اور کچھ قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ جب ان مجرموں نے پوچھا کہ ہماری ضمانت کس نے لی تو ان کو بتایا گیا کہ ان کی ضمانت امام رضا علیہ السلام نے لی ہے۔ وہ فرط جذبات سے لبریز ہوکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔
یہ ویڈیو اہل تشیع کے لیے بہت رقت آمیز ہوگی۔ لیکن یہاں میں نے کچھ گزارشات عالم دین کی خدمت میں عرض کیں کہ اس بات کی کوئی شرعی بنیاد تو ہے نہیں کہ امام رضا کے حکم پر ان لوگوں کو چھوڑا جارہا ہے۔
یہ زندہ لوگوں نے فیصلہ کیا ہے کہ کن قیدیوں کو رہا کیا جائے اور مستقبل میں وہ جرم نہ کریں تو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ان مجرموں کے جذبات کو ابھارا گیا اور ان سے کہا گیا کہ امام رضا نے تمہاری ضمانت لی ہے۔
فرض کریں کہ اگر یہ لوگ دوبارہ کوئی جرم کرتے ہیں تو کیا امام رضا سے پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ نے تو ان کی ضمانت لی تھی؟ یا اب ان کے ساتھ ساتھ آپ بھی کوئی جرمانہ ادا کیجئے۔
امام رضا علیہ السلام تو خدا کے پاس پہنچ گئے۔ ان کو کیا پتا کہ دنیا میں ان کے نام پر کیا کیا سوانگ رچا جا رہا ہے۔
دوسری بات یہ کہ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ان مجرموں سے جو اپنا حال بیان کر رہے ہیں کہ وہ مجبور تھے تو انہوں نے چوری کی ، ان سے کہا جاتا کہ گورنمنٹ نے تمہاری تعلیم، گھر کے افراد کے لیے خرچہ اور روزگار کا بندوبست کیا ہے تاکہ تم آگے چوری چکاری نہ کرو؟
مذہب اور مقدسات ایسی ہی چیز ہیں جن کے زریعے انسان کے ذہن کو ماؤف کیا جاتا ہے۔ اور یہ “مقدس کھیل” برسوں سے کھیلا جارہا ہے۔
ایک بات تو طے ہے۔ امام رضا علیہ السلام کے نام پر چوری چکاری یا معمولی جرائم پر قید مجرموں کو تو چھوڑا جاسکتا ہے مگر امام چاہیں بھی تو قاتلوں ، ریپسٹ اور نظام ولایت فقیہ کے خلاف باتیں کرنے والے مجرموں کی سزا معاف نہیں کی جاسکتی ۔
دنیا سے چلے جانے والے لوگ اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتے کجا کہ وہ اپنے نام کی مالا جپنے والے لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے کرنے لگیں۔
رہے نام اللہ کا۔
ابو جون رضا