صدقہ انفاق فی سبیل اللہ کی ایک صورت ہے۔ اس کے زریعے انسان اللہ کی خوشنودی چاہتا ہے۔ دین نے اس معاملے میں بے انتہاء آسانیاں بیان کی ہیں اور راہ سے تکلیف دہ پتھر کو ہٹانا صدقہ قرار دیا ہے۔
ایک درجہ اس کا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں انسان اپنے مال میں سے فرض زکوٰۃ ادا کرتا رہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اپنی ذاتی اور کاروباری ضرورتوں سے زیادہ جو کچھ ہو، اُسے معاشرے کا حق سمجھے اور جب کوئی مطالبہ سامنے آئے تو اُسے فراخ دلی کے ساتھ پورا کردے۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ اپنی خواہشوں کو دبا کر اور اپنی ضرورتوں میں ایثار کر کے انسان دوسروں کی ضرورتیں پوری کرے۔ یہی وہ چیز ہے جسے قرآن نے ’وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ‘ “اور اُنھیں اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود ضرورت مند ہوں” کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔
کچھ توہمات ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے موجود ہیں جن میں گوشت کو دریا میں پھینک دینا یا اس کو کسی جگہ جانوروں کے لیے رکھ دینا ، بکرے مرغے ذبح کروادینا، کسی بیمار کے اوپر سے پرندے وار کر ان کو اڑا دینا یہ وہ چیزیں ہیں جن کی دین نے کبھی تعلیم نہیں دی۔
صدقہ ایک نیک کام ہے اور نیک کام کرنے کے بعد اگر دعا کی جائے تو امید ہے کہ اللہ اس کو قبول کرے گا۔ یہ اصل میں صدقہ کی “روح” ہے جس کو لوگ نہیں جانتے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر صبح گھر سے نکلتے ہوئے پانچ دس روپے صدقہ سمجھ کر نکال دیے جائیں تو انسان پورا دن بلاؤں سے محفوظ رہتا ہے۔ جبکہ مشکلات یا بلاؤں کا ٹالنے والا اصلا خدا ہے۔ بہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں گھر سے نکلا اور میں نے صدقہ نہیں دیا اور کسی یقینی حادثے سے مجھے اللہ نے بچا لیا۔ لیکن ایسا بھی ہوا ہے کہ میں صدقہ دے کر نکلا ہوں اور مجھے کسی نہ کسی تکلیف کا سامنا کرنا پڑ گیا۔
یاد رکھیے کہ صدقہ خدا کو رشوت نہیں ہے اور نہ ہی خدا پر کوئی ذمہ داری ہے کہ وہ صدقہ دینے کے بعد انسان کی حفاظت کرے۔ یہ اس کا کرم و احسان ہے جو ہر خاص و عام پر ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ اگر یہ توہمات درست ہوتے تو اس دنیا میں صرف وہ مسلمان زندہ ہوتے جو صبح گھر سے نکلتے ہوئے صدقہ دیتے ہیں تاکہ پورا دن بلاؤں سے محفوظ رہ سکیں اور باقی لوگ خاص کر غیر مسلم کسی نہ کسی وجہ سے جہانی فانی سے کوچ فرماچکے ہوتے ۔
کیا ہمارا ایمان اتنا کچا ہے کہ ہم صدقہ نکال کر خدا کا امتحان لیتے ہیں؟
کیا آپ کسی دن بغیر صدقہ نکالے اور صرف اللہ پر توکل کر کے گھر سے نکل سکتے ہیں؟
میں صدقہ نکالتا ہوں اور اس کے بعد دعا کرتا ہوں۔ یہ میرا برسوں کا معمول ہے بالکل ایسے جیسے میں نماز پڑھ کر دعا کرتا ہوں اور اس کی قبولیت کو خدا کی مرضی پر چھوڑ دیتا ہوں۔
میں نے اپنی والدہ کو اپنے اس عمل کے بارے میں بتایا تھا تو ان کو یہ بات بہت پسند آئی تھی اور انہوں نے کہا میں خود بھی اس طریقے سے پر عمل کیا کروں گی اور تم جب بھی صدقہ دو تو میرے لیے اور اپنے والد کے لیے دعا کرنا اور جب میں مر جاؤں تو اس عمل کو اسی طرح سے جاری رکھنا اور مجھے صدقہ نکالنے کے بعد اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔
جب سے انہوں نے یہ وصیت مجھے کی تھی ، تب سے آج تک میں نے کبھی اس عمل کو ترک نہیں کیا اور اپنی اولاد کو بھی اسی کی وصیت کرتا ہوں۔
اللہ ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
ابو جون رضا