دنیا کے ہر مذہب میں اخلاقیات کی تعلیم ملتی ہیں۔ انبیاء اور حقیقی مصلح خود دنیاوی آسائشوں سے دور رہتے تھے اور اپنے پیروکاروں کو بھی یہی تلقین کرتے تھے کہ دنیا کی آسائشوں کو حاصل کرو مگر ان کے عادی مت بنو ۔ یہ انسانیت کا ہدف نہیں ہے کہ وہ جس طرح اور جس طریقے سے چاہے پیسہ حاصل کرے اور پیسہ اور طاقت کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرے۔
بد قسمتی سے مذہب کا نام لیکر معاشرے کی رہنمائی کرنے کا کام جنہوں نے کیا وہ خود طاقت اور پیسہ کے بھوکے تھے ۔ جب ان کا پیٹ بھر جاتا تھا تو وہ “زن” اور “زمین” کی تلاش کرتے تھے۔
آج بھی اس طرح کے لوگ پیسہ کمانے کے لیے لچھے دار باتیں کرتے ہیں، ماضی کی مقدس ہستیوں کے نام لیتے ہیں، عوام کو من گھڑت قصے سناتے ہیں اور صفائی سے ان کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔
غور کیجئے ، کیا کوئی سچا مذہب یہ تعلیم دے سکتا ہے کہ ہزاروں میل کا سفر طے کر کے کسی مزار پر حاضری دو اور وہاں صاحب مزار سے بیماری اور رزق میں اضافہ کی تمناء کرو؟
وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ مگر کسی مزار کی مجاوری کا انسانیت کو حکم نہیں دے سکتا۔
یہ باتیں انہی معاشروں میں لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں جہاں سسٹم کمزور ہوتے ہیں۔ مظلوم کو انصاف نہیں ملتا اور ظالم کا معاملہ آخرت پر ڈال کر صبر کیا جاتا ہے۔
ایک مثال سے سمجھیے۔
غازی صلاح الدین صاحب نے اپنی بیٹی جو لاس اینجلس میں رہتی ہیں کا ایک واقعہ روزنامہ جنگ کے آرٹیکل میں لکھا کہ ان کی شادی شدہ بیٹی اپنی فیملی کے ساتھ کہیں گھومنے گئی اور جس جگہ گئی وہاں اس کی بیٹی یعنی صلاح الدین صاحب کی نواسی رش میں کہیں کھو گئی ۔ ان کا داماد پاگلوں کی طرح اس کو ڈھونڈنے لگا بیٹی نے گھبرا کر 911 ڈائل کیا۔ یعنی اس نے ریاست کو “مدد” کے لیے پکارا۔ 911 والوں نے اس سے تفصیلات پوچھیں تو وہ گبھراہٹ میں جگہ نہیں بتا پا رہی تھیں جہاں وہ موجود تھیں۔ آپریٹر نے ان کی گھبراہٹ کو محسوس کرکے ان کو تسلی دی اور خود لوکیشن ٹریس کی۔ ان سے بچی کی تصویر مانگی ۔ اور پھر تصویر حاصل کرکے اطراف کے گارڈز ، پولیس سب کو انگیج کرلیا۔ قصہ مختصر یہ کہ بچی کو پندرہ منٹ میں ڈھونڈ کر ماں تک پہنچا دیا۔
یہ تھی نظام کی قوت اور بلند ترین اخلاقیات جس نے “العجل 911” کی طرف انسان کو متوجہ کیا اور اس کی مشکل فورا حل کی۔
کیا آپ اپنی ریاست سے اس طرح کی مدد کی توقع رکھ سکتے ہیں؟
آپ بد حال سسٹم کے مارے لوگوں کو ہمیشہ ان ماضی کی مقدس ہستیوں کو پکارتے دیکھیں گے جو جب زندہ تھیں تو اپنی مشکل کشائی نہیں کرسکیں مگر اب مشکل دور کرنے کو فٹ سے حاضر ہوجاتی ہیں۔
اسلام کے اس نام لیوا ملک میں روزانہ کے بنیاد پر ٹریفک حادثات ہوتے ہیں، لوگ مرتے ہیں، قانون کی پاسداری نہیں ہے، بچوں کے ریپ ہوتے ہیں، موبائل چھیننے پر گولیاں مار کر لوگوں کو ختم کیا جاتا ہے مگر مذہبی رسومات پوری آب و تاب سے سال کے تین سو پینسٹھ دن منائی جاتی ہیں۔
یعنی تیسرے درجے کے ممالک میں اچھا بھلا بندہ مذہب اختیار کرنے کے بعد انسانیت اور اخلاقیات کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے۔
ہمارے فلسفہ کے استاد کہتے ہیں کہ کبھی کسی سیکولر ملک کا چکر لگائیں تو وہاں کے سکولوں، کالجوں وغیرہ میں بھی ضرور جائیں۔ وہاں آپ کو دروازے سے لے کر کمروں کے اندر تک یہ فقرے پڑھنے کو ملیں گے:
1۔ دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں جیسا آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ کریں۔
2۔ تعلیم کا مطلب ہے اخلاقی و سماجی ذمہ داری۔
3۔ دوسروں کی رائے کا احترام کریں۔
4۔ تعلیم کا مطلب ہے رواداری کو فروغ دینا۔
5۔ مختلف رنگ، نسل، علاقہ، مذہب وغیرہ سے تعلق رکھنے والے سب برابر ہیں۔
6۔ رواداری ایک اعلی انسانی آدرش ہے۔
7۔ آزادی اظہار بنیادی جمہوری حق ہے۔
اس قسم کے بیسیوں فقرے آپ کو سیکولر معاشروں میں مل جائیں گے۔ ان انسانی آدرشوں کا آغاز مسیحیت کے انہدام اور لبرل ازم کے فروغ کے ساتھ ہوا۔ وہ معاشرے اور وہاں کے لوگ آپ کے سامنے ہیں۔
اس کے برعکس جہاں لوگوں کو یہ سکھا دیا جائے کہ “آخری سچائی” انہی پر اتری ہے، تو پھر یہ سکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ باقی سب “سچائیاں” غلط ہیں۔ احترام انسانیت کا جنازہ نکل جاتا ہے اور مذہب فاتح قرار پاتا ہے۔
پھر سیکولر معاشرے کے لوگ مذہب کو جانچنے کا اصل پیمانہ لوگوں کو اور ان تعلیمات کو قرار دیتے ہیں جو اذہان میں راسخ ہو کر ان کے کردار کو متعین کرتی ہیں۔
جب نفرت آمیز تعلیمات کے اثرات لوگوں کے دل و دماغ پر نقش ہوتے ہیں تو پھر اس کے بعد مذہبیوں کو کبھی بھی انسانی و اخلاقی سطح پر نہیں لایا جا سکتا۔
خدا کے نام پر دہشت ، مخالفین پر ارتداد کے فتوے اور ان کا قتال، آخری سچائی کا زعم، اپنے علاوہ سب کو جہنم کا ٹکٹ ارسال کرنا،وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب آج کے مذہبیوں کے “اوصاف” ہیں۔
ان اوصاف کو ترک کر کے ہی انسان بنا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر بندہ مذہبی تو رہے گا، انسان نہیں بن پائے گا۔
ابو جون رضا
haqiqat hai