دعا کا انداز

آج کھانے پر استاد گرامی سید جواد حسین رضوی اور ہمارے کولیگ جناب اسد بھائی سے گفتگو ہورہی تھی۔ موضوع دعا تھا جس پر کافی طویل بات چیت ہوئی۔

استاد گرامی کا دعا کا نظریہ بڑا نپا تلا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم دعا نہیں مانگتے بلکہ خدا کو پریشرائز کرتے ہیں کہ فلاں کام ضرور ہونا چاہیے ۔ اس پریشر کو مزید بڑھانے کے لیے ہم واسطے دیتے ہیں، بدھ کے امام بارگاہ جیسی جگہوں پر جاتے ہیں۔ مختلف قبور کے چکر لگاتے ہیں وغیرہ۔

ائمہ اور اولیاء کو ہم بھی ہم نے انہی کاموں کے لیے رکھا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر ہم ان کی قبرکی زیارت کے لیے جائیں گے تو اولاد کی دعا مانگیں گے کہ مولا لڑکا چاہیے۔ بی بی سکینہ کے مزار سے گڑیا مل گئی تو اس کا مطلب ہے لڑکی ہوگی وغیرہ۔

اگر دعا قبول ہوگئی اور لڑکا یا لڑکی پیدا ہوگئے تو فخر سے سینہ چوڑا کر کے پبلک میں گھومیں گے کہ مولا سے مانگ کر لایا ہوں۔ اور اگر دعا قبول نہیں ہوئی تو پھر کسی اور نذر نیاز ، چلہ، مجلس ماتم، بی بی کا تابوت وغیرہ جیسے کاموں کی طرف لگ جائیں گے

فرض کیجئے اگر ائمہ تمام لوگوں کے خواب میں آکر کہہ دیں کہ ہم سے کچھ مت مانگنا اور ساتھ میں دھمکی بھی دیں کہ اگر ہمارے مزار پر آکر دعا مانگی تو قبول ہوتی ہوئی بھی نہیں ہوگی۔ یقین کریں کارواں والے اپنا بوریا بستر لپیٹ کر کوئی اور کام شروع کردیں گے کیونکہ عوام جانا ہی بند کردے گی۔

ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر ہم قبور کی زیارت کو گئے تو دنیا میں بھلے کچھ نہ ملے لیکن آخرت میں تو مولا دیکھتے ہی پہچان لیں گے کہ یہ شخص اپنی زندگی میں چار پانچ دفعہ میرے مزار پر آیا تھا اور اس نے زور دار ماتم بھی کیا تھا۔ اس کو فورا جنت میں سب سے اپر کلاس میں جگہ دینی چاہیے۔ یعنی عدل وغیرہ سب گیا بھاڑ میں، جنت بغیر مشقت کے مل رہی ہوگی۔

انسان کتنا عجیب ہے ۔ نیک کام کرتا ہے اور یہ دھونس بھی خدا پر رکھتا ہے کہ اس کو کسی قسم کا نقصان یا تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے

اگر اس کی دعا قبول نہ ہوئی یا خدانخواستہ کوئی بڑا نقصان ہوگیا تو پہلا بت جو زمین بوس ہوتا ہے وہ خدا کا بت ہوتا ہے۔

یہ بت اس لیے تراشا گیا ہے کیونکہ یہ دعا قبول کرتا ہے، پریشانیاں بھگاتا ہے۔ چار پانچ بدھ اگر کسی امام بارگاہ کی چھوکٹ کو چھو لیا تو لازمی بگڑے کام بن جائیں گے۔

دعا ضرور مانگیے، مگر یہ بات ذہن سے نکال دیجئے کہ خدا پر لازم ہے کہ وہ آپ کی حاجت برلائے ۔ راضی برضا رہنا اسی کو کہتے ہیں کہ ہر حال میں انسان خدا کی مشیت پر راضی رہے۔

اگر لوگ دعا کے مغز کو سمجھ لیں تو معاشرے میں پھیلے جعلی بابوں، پیروں اور مزار کے متولیوں کا صفایا ہوجائے۔

ابو جون رضا

3

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *