قرآن عرب میں آیا ۔ رسول اکرم عرب میں پیدا ہوئے تھے ۔ قران کے اولین مخاطبین صحرائی لوگ تھے ۔ جو خشک طبیعت کے مالک تھے ۔ یہ زندگی کا بڑا حصہ تجارت اور سفر میں گزارتے تھے ۔ گرم دنوں اور تاریک راتوں میں غول بیابانی، ڈاکو، راہزن، رستہ بھٹک جانے کا خوف، پیاس بھوک، ستاروں کے ذریعے راستے کی تلاش، تیز ہوا اور ریت کا طوفان، کہیں تاک میں چھپا بیٹھا دشمن وغیرہ، ان سب باتوں کا عربوں کی زندگی سے چولی دامن کا ساتھ تھا۔
قران نے ان اصطلاحات کا جو عرب عوام میں مستعمل تھیں، بے دریغ استعمال کیا ہے۔ مثلا صراط و سبیل، ہدی، رشد، فریق، زاد یہاں تک شیطان کی اصطلاح بھی جو ایسا دشمن ہے کہ سیدھے راستے پر بیٹھ جاتا ہے اور لوگوں کو بھٹکاتا ہے۔
یہ درست ہے کہ عرب ان اصطلاحات کو مذہبی معنوں میں استعمال نہیں کرتے تھے۔ یہ رسول اکرم ہیں جنہوں نے ان اصطلاحات کو ایک نئے انداز میں بہت خوبی سے استعمال کیا اور عربوں کے لیے معنی کی گہرائی میں پہنچنا مشکل نہیں رہا جس کی طرف قران نے بھی یہ کہہ کر اشارہ کیا
“اور ہم نے قران کو سمجھنے کے لیے آسان کردیا یے تو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے”
(سورہ والقمر)
عرب زیادہ تر “امی” تھے اور لکھنے پڑھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے ۔ اس کے بجائے سینہ بہ سینہ روایات پر انحصار کرتے تھے ۔ اس لیے قران کریم میں قلم، مٹانا، سیاہی، درست کرنا، متن، کاغذ، نشان لگانا، غلط متن کو درست کرنا یا صحیح کرنا وغیرہ جیسے الفاظ شاذ ہی کچھ نظر آتے ہیں وہ بھی نہ ہونے کے برابر ، جبکہ تجارت سے مربوط الفاظ قران کریم میں بہت استعمال ہوئے ہیں۔
مثال کے طور پر، خسر (نقصان)، تجارہ (تجارت)، ربا (سود)، قرضا (قرض) ، بیع (بیچنا) ، شرع (خریدنا) ، اجر (اجرت) وغیرہ
ان آیات کو دقت نظر سے دیکھیے،
اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَــنَّةَ ۗ يُقَاتِلُوْنَ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَيَقْتُلُوْنَ وَ يُقْتَلُوْنَۗ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِى التَّوْرٰٮةِ وَالْاِنْجِيْلِ وَالْقُرْاٰنِ ۗ وَمَنْ اَوْفٰى بِعَهْدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسْتَـبْشِرُوْا بِبَيْعِكُمُ الَّذِىْ بَايَعْتُمْ بِهٖ ۗ وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ۔
“حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے “خرید” لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں ان سے (جنت کا وعدہ) اللہ کے ذمے ایک پختہ وعدہ ہے توراۃ اور انجیل اور قرآن میں اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اس “سودے” پر جو تم نے خدا سے “چکا لیا” ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے”
(سورہ توبہ آیت 111)
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی ۪ فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ
“یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے میں گمراہی “خرید” لی ہے، چنانچہ نہ تو ان کی “تجارت” سودمند رہی اور نہ ہی انہیں ہدایت حاصل ہوئی.
(سورہ البقرہ آیت 16)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ یَوۡمٌ لَّا بَیۡعٌ فِیۡہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ ؕ وَ الۡکٰفِرُوۡنَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ
اے ایمان والو! جو مال ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو قبل اس دن کے جس میں نہ “تجارت” کام آئے گی اور نہ دوستی کا فائدہ ہو گا اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم وہی لوگ ہیں جنہوں نے کفر اختیار کیا۔
(سورہ البقرہ آیت 254)
مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یُقۡرِضُ اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗۤ اَضۡعَافًا کَثِیۡرَۃً ؕ وَ اللّٰہُ یَقۡبِضُ وَ یَبۡصُۜطُ ۪وَ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ
“کوئی ہے جو اللہ کو “قرض” حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا زیادہ دے؟ اللہ ہی گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے”
(سورہ البقرہ آیت 245)
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ
ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما۔
(سورہ فاتحہ آیت 6)
میں نے آیت اللہ محسن نجفی کے بلاغ القران ایپ کے زریعے تلاش کیا تو مجھے پتا چلا کہ قران کریم میں لفظ “صراط” 51 دفعہ آیا ہے۔ اسی طرح لفظ “خسر” 56 دفعہ آیا ہے۔
اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ
انسان یقینا خسارے میں ہے
(سورہ عصر آیت 2)
اس طرح کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔اس وجہ سے بعض اسکالرز کا کہنا یے کہ اسلام کسی بھی ملک یا کلچر میں پروان چڑھتا وہ “اسلام” ہی رہتا۔ اصل چیز اس کا “مغز” ہے جس پر عرب ثقافت کا “چھلکا” موجود تھا جب یہ دوسرے خطوں میں پھیلا۔
سوال یہ ہے کہ اسلام کا مغز کیا ہے؟
اس پر قرآن اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کو دعوت فکر دوں گا
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
ابو جون رضا