اہلبیت پر اپنوں نے دوسروں سے بڑھ کر جفا کی ہے۔ لوگوں نے سمجھا ہے کہ ان کے نام پر دو چار آنسو بہا کر اجر رسالت ادا ہوجاتا ہے۔ جبکہ معاملہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
اہلبیت کی قربانیوں کے فلسفہ کو لوگ نہیں سمجھ سکے۔ انہوں نے بس رونے پیٹنے کو اصل دین سمجھ لیا۔
بقول اقبال
قوم کیا چیز ہے ، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
دنیا کس طرح سے ان لوگوں کی طرف پلٹی ہے اس کو دیکھنا ہے تو امام موسی کاظم اور امام علی رضا کی زندگی کو دیکھیے .
امام موسی کاظم جن کو زندان میں ہارون الرشید نے ڈالا تھا وہ یہ کہہ کر دنیا سے چل دیے کہ
“إنه لن ينقضي عني يوم من البلاء إلا انقضى عنك معه يوم من الرخاء، حتى نفضى إلى يوم ليس له انقضاء”
“اگر یہاں میری مصیبت کا ایک دن گزر کر ختم ہوجاتا ہے تو وہیں تمھاری عیش و عشرت کا ایک دن بھی تو ختم ہورہا ہے۔ عنقریب ہم دونوں ایک ایسے دن تک پہنچ جائیں گے جو کبھی نہیں کٹے گا”
کمال جملے ہیں، جن کی چاشنی کو اہل دل ہی سمجھ پائیں گے ۔
حسین آزاد صاحب نے درست کہا کہ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیے کہ ہارون نے امام موسی کاظم کو اس شبہے میں قید کیا تھا کہ آپ خلافت کے حصول میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جب کہ اسی ہارون کا بیٹا مامون ، امام موسی کاظم کے بیٹے امام علی رضا کی منتیں کرتا رہ گیا کہ آپ خلافت کی مسند قبول کر لیں۔ بمشکل انھیں اپنی ولی عہدی پر راضی کیا لیکن انھوں نے مامون سے پہلےداعیِ اجل کو لبیک کہہ کے اس کی حسرت کو حسرت ہی رہنے دیا۔
علی رضا طوس کے دیارِ غیر میں چل بسے، وہیں دفن ہوئے۔ طوس کا نام مشہدِ امام رضا پڑگیا اوران کی قبر عالی شان محل سے بھی بڑے “حرمِ امام رضا” میں بدل گئی۔
کربلا تو ایک پڑاؤ ہے، اہل نظر کے لیے مقامات اور بھی ہیں۔ یہ وہ تجلیاں ہیں جن کی چمک سے اہل معرفت کے راستے منور رہیں گے ۔
کربلا اک آفتاب اور اس کی تنویریں بہت
ایک کتاب آگہی جس کی ہیں تفسیریں بہت
ابو جون رضا