افلاطون نے اپنی کتاب لاز میں کائنات کی تخلیق کا تصور پیش کیا تھا ۔ اس نے یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ کائنات عدم سے وجود میں نہیں آئی بلکہ اس کا مادہ موجود تھا۔ یہ دوئی کا نظریہ ہے۔ جہاں مادہ اور بنانے والا دونوں الگ الگ موجود ہیں۔۔
ایک مثال سے سمجھتے ہیں
فرض کریں ہم ایک گھر بنانا شروع کرتے ہیں ۔ جس دن وہ گھر تعمیر ہوجاتا ہے ہم اس دن سے اس گھر کی تاریخ معین کردیتے ہیں کہ فلاں دن یہ گھر تعمیر ہوگیا۔ لیکن مٹی ریت بجری سریا یا وہ کاریگر جس نے گھر تعمیر کیا وہ پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔ وہ آرکیٹیکٹ جس نے گھر کا نقشہ بنایا وہ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔
افلاطون کا نظریہ بھی اسی طرح کی تخلیق کے نظریہ پر استوار ہے۔
اگر ہم افلاطون کا دوئی کا تصور کائنات کے حوالے سے اپناتے ہیں تو یہ ایک طرح سے دوئی کا تصور ہے یعنی مادہ پڑا ہوا تھا اور ایک کاریگر نے اس پر کچھ اس طرح سے اثر ڈالا کہ کائنات بن گئی۔
ہر وہ شے جو ایک مظہر کی صورت میں ہو وہ قابلِ مشاہدہ ہوتی ہے۔ جیسا کہ یہ کائنات یا اس میں موجود تمام اشیاء ہیں۔
فلسفے میں کائنات کے ہونے کو ہم ’وجود‘ کہتے ہیں۔ ان معنوں میں وجود ایک فلسفیانہ مقولہ ہے جس کی ماہیت کو جاننے کا آغاز پارمینائیڈز نے کیا تھا۔
وجود کے برعکس عدم وجود ہے، جس کا مطلب وجود کا نہ ہونا ہے۔
اگر ہم کائنات کو بحیثیٹ کُل تصور میں لائیں تو ہمارے ذہن میں کسی دوسرے وجود کا تصور نہیں ابھرتا۔ بلکہ صرف ایک خیال ذہن میں آتا ہے
اس کو بھی مثال سے سمجھیے
اگر یہ کہا جائے کہ گھوڑے کے سر پر سینگ ہوتے ہیں لیکن ایسا کوئی گھوڑا پیش نہ کیا جا سکے، لیکن وہ گھوڑا مسلسل ہمارے ذہن میں ویسا ہی رہے تو ہم یہ کہیں گے کہ یہ صرف ایک خیال ہے۔
کائنات وجود ہے۔ وجود کی اپنی شناخت کے لیے کسی دوسرے وجود کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ صرف عدم کی ضرورت ہے۔ کیونکہ کسی بھی شے کے ہونے کی شناخت اس کے عدم میں مضمر ہے۔
میں اپنے استاذ کی پیش کی ہوئی مثال سے استفادہ کرتے ہوئے بات آسان کرتا ہوں
ایک سفید کاغذ پر کسی کالی پینسل سے کوئی نقطہ لگائیں۔آپ کو نقطہ کورے کاغذ پر نظر آئے گا
غور کیجئے، نقطہ صرف اس لیے قابل مشاہدہ وجود رکھتا ہے کہ وہ دونوں اطراف میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح زمان و مکان کائنات یا مادے کی صفات ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کائنات میں جن اشیا کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں وہ مکان میں پائی جاتی ہیں۔ مکان کو ہم خلا کہتے ہیں اور اس مکان میں جو اشیا ہیں وہ مادی وجود رکھتی ہیں اور ان کی شناخت اس مکان میں ہوتی ہے۔ یہ دونوں ہی خصوصیات مادی کائنات کی ہیں۔ اگر مکان نہ ہو تو صرف مادہ ہوگا لیکن اس کی صفات کا تعین نہیں ہو سکے گا۔ جس طرح کائنات میں شناخت کے تعین کی دونوں خصوصیات پائی جاتی ہیں، اسی طرح کائنات بحیثیت کُل زمانی و مکانی صفات کے علاوہ کوئی وجود نہیں رکھتی، بلکہ زمان و مکان سے ماورا صرف عدم محض کی ہے، اور وہی عدم ایک تصور ہے جسے خدا کا نام دیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ کائنات کو عدم نہیں کہا جا سکتا، بلکہ عدم محض وہ ہے جو کائنات سے خارج ہے، بالکل اس نقطے کے دونوں اطراف کی مانند ، جس کے اردگرد کچھ بھی موجود نہیں ہے۔
عدم بحیثیت کُل وجود کی ہی صفت ہے لیکن عدم، وجود کائنات کے مقابل خدا کا تصور ہے۔
مثال کے طور پر ایک بیج جب پودا نہیں بنا ہوتا تو اس وقت اس بیج کا عدم اس کے اندر شامل ہوتا ہے۔ یعنی بیج کی نفی سے پودا برآمد ہوتا ہے اور جب تک بیج پودا نہیں بنا تھا وہ بیج عدم میں تھا۔
خدا کے عدمِ محض ہونے کا سب سے اہم ثبوت یہ ہے کہ اس کی کوئی ایک بھی خصوصیت ایسی نہیں ہے جو کائنات اور انسان میں موجود نہ ہو۔ اگر خدا عدمِ محض نہیں ہے تو اس کے چند ایک متعینات کی نوعیت ایسی ہونی ضروری ہے کہ جس کی بنیاد پر اس کی شناخت کی جا سکے۔ چونکہ اس کی شناخت کا واحد وسیلہ کائنات ہے اس لیے کائنات کا وجود بطورِ وجود اور علت مذہبی اذہان میں خدا کے تصور کو ابھارتا ہے اور مذہبی ذہن کائنات سے باہر ایک خدا کو تلاش کرتے ہیں جو باہر بیٹھ کر اس کائنات کو چلاتا ہے
اگر ہم اس نکتے کو ذرا باریکی سے دیکھیں تو ساری غلط فہمی کی بنیاد اس شخصی خدا کے تصور میں ہے جو انسانوں جیسے جذبات رکھتا ہے اور انسان سمجھ لیتا ہے کہ وہ خدا کائنات سے باہر کہیں بیٹھا کائنات کو چلا رہا ہے۔ فلسفیانہ روایت میں ایسے شخصی خدا کا دفاع کرنا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ انسان نے اپنی تمام اوصاف اپنی آئیڈیل فام میں خدا سے منسوب کردی ہیں۔
جرمن فلسفی ہیگل جب وجود محض کا بے مثال تجزیہ پیش کرتا ہے تو وہ مادے کے نہ ہونے کے تصور کو مسترد کرتا ہوئے مادے کی صفات کے عدم اظہار کو کائنات کی تخلیق کا ابتدائی مرحلہ مانتا ہے۔ ایسا مادہ کہ جس پر کوئی بھی قوت باہر سے عمل پیرا نہیں ہوئی تھی، بلکہ اس کی قوت اس کے اندر موجود تھی۔
اسی قوت کو ہیگل نے اسپرٹ کا نام دیا تھا۔
اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی کتاب “وقت کی تاریخ” یہی بات کی ہے کہ مادہ موجود تھا اور ہیگل کے الفاظ میں اسپرٹ بھی اس کے اندر موجود تھی جس نے خود کو انفولڈ کیا، بالکل اس طرح سے جس طرح سے بیج میں سے پودا برآمد ہوتا ہے
چونکہ ہر انسان مادے کی اس ابتدائی ساخت کو ایک ’دوسرے‘ کو فرض کیے بغیر اپنے احاطہ تخیل میں لانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس لیے وہ ایک ایسے کاریگر کا تصور کرتا ہے، جو کائنات کو باہر سے تشکیل دیتا ہے جس کا میں نے ابتداء میں ذکر کیا۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا کیا ہے؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ جب خدا سے ملاقات ہوگی تو ہم دیکھ لیں گے کہ وہ کیسا ہے، فی الحال اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یعنی ان کو نہیں معلوم کہ خدا کی ماہیت کیا ہے؟
دوسری طرف ملحدین سے پوچھا جاتا ہے کہ مادہ کہاں سے آیا اوراس میں شعور کہاں سے آیا ؟ تو اس کا جواب ان کے پاس بھی نہیں ہے۔
اہل علم کی نگاہ میں یہ صدی شخصی خدا کے اختتام کی صدی ہے اور آنے والا وقت بتائے گا کہ ایک آفاقی خدا کا تصور قابل قبول ہوتا ہے یا یہ کائنات کسی اور طرح سے ظہور کرتی ہے
ابو جون رضا
Bhot aala