عنکبوت مقدس

مذہب کا جزوی مطالعہ انسان کی مت مار دیتا ہے۔

جو کتاب آپ کے نظریہ کے خلاف ہو اس کا بیچنا حرام قرار پاتا ہے۔ جس کام کو کسی مسلک کا حامی غلط سمجھتا ہے اس کے انجام دینے والے کی لتر پریڈ یہاں تک کہ اس کا مار ڈالنا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے۔ عقیدے کے نام پر لوگوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور پھر وہ کیسے کیسے کام انجام دیتے ہیں ،یہ پڑھ کر یا دیکھ کر انسان حیرت و افسوس میں ڈوب جاتا ہے

عنکبوت مقدس بھی ایک ایسی ہی مووی ہے جس کے بارے میں دعوی ہے کہ یہ سچے واقعات پر مبنی ہے۔ یہ فلم اُن حقیقی واقعات پر مبنی ہے جو سن 2001 اور 2002 کے درمیان ایران کے مقدس شہر مشہد میں پیش آئے تھے۔

تاریخ میں درج واقعات کے مطابق سعید نامی ایک شخص رات کی تاریکی میں مشہد کی گلیوں قتل کرنے کی نیت سے نکلتا تھا۔ اُس کا نشانہ جسم فروش عورتیں ہوتی تھیں جو بقول اُس کے، مشہد کی پاک فضاء کو آلودہ کررہی تھیں۔

سعید ان عورتوں کو رقم کا جھانسا دے کر اپنے گھر لےجاتا تھا اور پھر بڑی بے دردی سے اُن کا قتل کرکے شہر کے باہر اُن کی لاشیں پھینک آتا تھا۔ چونکہ یہ عورتیں غریب طبقے سے تعلق رکھتی تھیں اور ایک غیر قانونی پیشہ کرتی تھیں، اس لیے پولیس نے اس معاملے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ یہ قاتل کسی خاص صلاحیت کا مالک نہیں تھا۔ اُس کے قتل کرنے اور پھر لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے انداز میں ایک اناڑی پن تھا جو کسی بھی مجرم کو پکڑوا سکتا تھا ۔ لیکن چونکہ قانون کو ان مارے جانے والی عورتوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں تھا، اس لیے سعید بلا خوف و خطر اپنا یہ کام انجام دیتا رہا۔ ایک سال کے عرصے کے دوران سعید نے 16 عورتوں کو جان سے مارا جس کے بعد بالآخر وہ پکڑا گیا۔

اگرچہ سعید اپنا کام صفائی سے انجام نہیں دے پاتا تھا، پھر بھی اس میں کافی وہ اقدار تھیں جو سیریل کلرز میں مشترک ہوتی ہیں۔ مثلآ وہ ہمیشہ ایک ہی طریقے سے قتل کرتا تھا۔ وہ مقتولہ کو اُن کے ہی دوپٹے سے گلا گھونٹ کر مارتا تھا۔ ہر قتل کے بعد وہ چاہتا تھا کہ اس کے کام کا چرچا ہو۔ سعید عراق ایران جنگ میں حصہ لے چکا تھا جس کے اثرات اُس کے ذہن پر نقش ہوچکے تھے۔ وہ اس بات پر افسردہ تھا کہ جنگ نے اُس کو ہیرو نہیں بنایا۔ اگر وہ شہید ہوتا تو شاید اس کا نام عام ہوتا۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے اس نے عورتوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

اُس کو یہ بھی محسوس ہوتا تھا کہ وہ کوئی معمولی انسان نہیں ہے اور اُس کو اس دنیا میں کسی خاص مقصد کے تحت بھیجا گیا ہے۔ اپنے قتل و غارت کو سعید نے جہاد کا نام دیا تھا اور جب پکڑے جانے کے بعد اس کے بیانات عام ہوئے تو بجائے ان کی مذمت کے ، اس کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی۔ راتوں رات سعید ایرانی عوام کا ہیرو بن گیا۔

لوگوں نے اس کے بیانیے کو تسلیم کیا اور اس کو ایک نیک اور دینی شخص کے طور پر سراہا۔ اس کے حق میں کئی احتجاج کیے گئے جبکہ اکثر لوگوں نے یہ بھی کہا کہ سعید کو اس کا کام جاری رکھنے دینا چاہیے تھا۔

یہ فلم ان رویوں کی بخوبی منظر کشی کرتی ہے جو ایک سو کالڈ مذہبی معاشرہ میں رائج ہوتے ہیں اور یہ اُس نظام اور معاشرے پر تنقید کرتی ہے جہاں نہ صرف ایسے واقعات کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جاتا ہے، بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جاتی ہے۔

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *