پرانی جتنی اقوام اور مذاہب ہیں ان کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے۔ ایک بات سب میں مشترک ملے گی کہ ان کو کسی نہ کسی کا انتظار ہے ۔ کمال یہ ہے کہ جب ان کا مسیحا آجاتا تھا تو وہ اس کا انکار کردیتے تھے۔ اور پھر ایک طویل انتظار میں بیٹھ جاتے تھے
ایک مثال سے سمجھیے۔
یہود۔یوں کو بتایا گیا تھا کہ کوئی آنے والا ہے اور وہ آ کر ایسا کام کرے گا جو لاکھوں پیغمبروں سے بھی نہیں ہو پایا۔ وہ انتظار میں بیٹھے رہے۔ پھر ایک نے دعوی کر دیا کہ وہ آ گیا ہے۔ یہو۔دیوں نے اسے پکڑا اور مصلوب کر دیا۔ بعد ازاں جس نے آنا تھا اس کا انتظار کرنے لگے۔
عیسائیوں میں روایت ہے کہ سیدنا مسیح نے مصلوب ہونے سے پہلے کہا تھا کہ میری آمد ثانیہ کا انتظار کرو۔ میں دوبارہ آ کر وہ کام کروں گا جو اس بار نہیں کر پایا۔
مسیحی بھی انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
عربیوں نے پرانوں کی کتابوں سے پڑھا تھا کہ کوئی آنے والا ہے۔ رسول اکرم تشریف لائے اور انہوں نے بتایا کہ میں وہی ہوں جس کی آمد کی خبر ہر نبی دیتا آیا یہاں تک کہ مجھ سے پہلے چھ سو سال پہلے جو نبی گزرا اس نے میرا نام “احمد” بتایا تھا۔
مکے والوں نے مانا اور نہ پہلے والے “اہل کتاب” نے۔ پھر آپ مدینے تشریف لائے اور یہاں یہودیوں نے ماننے سے انکار کردیا۔ یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوگیا۔
اس کے بعد پھر مسلمانوں کو پتا چلا کہ ایک اور آئے گا جو “منجی” ہوگا اور مسلمانوں کی حکومت پوری دنیا پر قائم کرے گا۔ اس کی حکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پییں گے۔ مگر غیر مسلموں کو کسی گھاٹ پر پناہ نہیں ملے گی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ یہودی تین ہزار برس سے، مسیحی دو ہزار برس سے، جبکہ مسلمان پندرہ سو برس سے اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ “ایک” آنے والا ہے اور وہ جو آنے والا ہے وہ ایسا کام کرے گا جو پچھلی کسی مقدس ہستی سے نہیں ہوسکا تھا۔
یہ جو بات میں نے آپ کو بتائی ہے یہ کوئی اساطیری داستان نہیں ہے بلکہ ہمارے عہد کے تین بڑے مذاہب کے بنیادی عقائد کا حصہ ہے۔ یہاں تک کہ ہندو بھی “کالکی اوتار” کے انتظار میں ہیں کہ وہ آئے گا اور اس کے آنے بعد ہندو پوری دنیا پر راج کریں گے۔
بہت ہی ادب سے اس سارے معاملے پر یہی تبصرہ کرسکتا ہوں کہ گزشتہ تین ہزار برس سے اس عقیدے کو ماننے والے “ٹرک کی بتی” کے پیچھے لگے ہیں۔
ابو جون رضا
بہت ہی سادہ مگر سچی بات ہے اور سب سے زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ بات صاف سیدھی اور سٹرئٹ فاروڈ ہے
شکریہ پیارے بھائی