شعوری تضاد

فلسفیوں پر تنقید کی روایت ہمارے یہاں عام ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ فلسفی مخبوط الحواس قسم کے لوگ ہوتے ہیں جنکا کام صرف سوچ بچار کرنا اور دقیق نکات بیان کرنا ہوتا ہے جو کسی کو سمجھ میں نہیں آتے۔

اگر میں فلسفیوں کی زیادہ تعریف نہ بھی کروں تب بھی یہ بات تو طے ہے کہ سوچ بچار کرنے والے لوگ ان لوگوں سے بہتر ہوتے ہیں جو بناء سوچے سمجھے کسی بھی رائے پر اڑ جاتے ہیں یا مذہبی جادوگروں کی کرشماتی باتوں پر بغیر سوچے سمجھے ایمان لے آتے ہیں۔

دوسری طرف متکلمین ہیں یا وہ علماء ہیں جن کو جرمن زبان کا کوئی علم نہیں ہوتا ۔ یہ لوگ جب کانٹ، ہیگل، مارکس اور دیگر فلسفیوں پر جب تنقید کرتے ہیں تو ان لوگوں نے ان فلسفیوں کے فلسفے کا براہِ راست مطالعہ نہیں کیا ہوتا ہے۔ ان کے پاس جو محدود “علم” ہوتا ہے وہ بھی کسی کتاب کے ترجمہ سے ہی ماخوذ ہوتا ہے۔

پھر یہ لوگ انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے فلسفیوں پر تنقید شروع کر دیتے ہیں لیکن کمال یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو “مذہبی کتاب” کی تفہیم کے لیے عربی زبان کو ضروری سمجھتے ہیں۔ جبکہ دیگر کسی بھی مذہبی کتاب کی تنقید کے لیے یہ اس زبان کو جاننا ضروری نہیں سمجھتے۔

میں نے آیت اللہ مرتضی مطہری کی اردو میں ترجمہ شدہ شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جو نہ پڑھی ہو۔ مطہری صاحب بہت زبردست اور روشن فکر عالم تھے۔ ان کی کتابیں مجھے تھوڑی دقیق اس لیے لگتی تھیں کہ وہ جا بجا مغربی مفکرین جسیے برٹنڈ رسل اور دوسرے مختلف فلسفیوں کے حوالے دیتے تھے اور ان پر تنقید کرتے تھے۔

پانچ سال پہلے جب میں نے فلسفہ کا مطالعہ کیا اور مستقل فلسفہ پڑھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ بڑے بڑے مذہبی سورما بھی فلسفہ کو گہرائی سے سمجھ نہیں سکے تھے اور انہوں نے بھی عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے سواء کوئی نیا تنقیدی زاویہ پیش نہیں کیا تھا۔

اس رویے کو علی عباس جلالپوری نے بھی واضح طور پر محسوس کیا تھا۔ جلالپوری اسی نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

’’سید سلیمان ندوی نے اس افسوس کا اظہار کیا ہے کہ علمائے اسلام جدید علوم سے بے خبر ہیں اس لیے وہ اپنے متکلمانہ فرائض کماحقہ انجام نہیں دے سکتے۔ شبلی نعمانی بھی اس حقیقت سے غافل نہیں تھے۔‘‘

(اقبال کا علمِ کلام، ص، 18)

جلالپوری شبلی نعمانی کا یہ اقتباس پیش کرتے ہیں۔

’’امام اشعری، ماتریدی، امام الحرمین، باقلانی جو علمِ کلام کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، ان میں ایک بھی فلسفہ دان نہ تھا۔ آج بھی یہی حال ہے۔مصر اور ہندوستان میں نہایت قابل و لائق بزرگوں نے جدید خیالات اور مسائل کے رَد میں کتابیں لکھیں اور ان کی تصنیفات جدید علمِ کلام کی حیثیت سے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں لیکن ان میں سے ایک بھی یورپ کی کوئی زبان نہیں جانتا۔‘‘

(ایضاََ، ص، 19-18)

جلالپوری مزید رقمطراز ہیں۔

’’خود شبلی نعمانی نے علومِ جدیدہ سے واقفیت بہم پہنچائے بغیر علمِ کلام پر قلم اٹھایا تھا۔ اس پہلو سے اقبال کو مخصوص و ممتاز مقام حاصل ہے کہ وہ فلسفہ جدید سے واقف تھے۔ اس لیے قدرتی طور پر فلسفہ جدید کو “مسلمان” کرنے کا قرعہ فال انہی کے نام پڑا۔‘‘

(ایضاََ، ص، 19)

میں جس ملک میں رہتا ہوں یہاں اچھی سے اچھی یونیورسٹی میں ڈھونڈنے سے بھی فلسفہ کے طالب علم یا ڈیپارٹمنٹ نہیں ملیں گے ۔ کچھ گورنمنٹ یونیورسٹیز میں فلسفہ کا شعبہ موجود ہے۔ مگر وہاں اب الو بولتے ہیں۔ کیونکہ سوچ بچار اور تفکر اس قوم سے کبھی کا رخصت ہوا۔

اب یہاں راتوں کو شور شرابے ، محافل اور مخصوص مہینوں میں لگے بندھے اعمال اور ظاہری پوجا پاٹ پر توجہ دی جاتی ہے۔

یہاں کے لوگ جتنا زور پوجا پاٹ میں لگاتے ہیں، اتنا ہی ان کا ملک قرضے میں دھنستا چلا جاتا ہے۔

کمال حیرت ہے کہ جن لوگوں نے بزعم خویش جنت میں پلازے اور بلڈنگز کھڑی کر لی ہیں ان کی دنیاوی حالت کو درست کرنے میں خدا کو ذرا دلچسپی نہیں ہے؟؟؟

میں سوچتا ہوں کہ اگر مرنے کے بعد ان کو پتا چلا کہ جس شعور کو لیکر یہ دوسرے جہاں تشریف لائے ہیں وہاں اس کی دو ٹکے کی اوقات نہیں ہے تو ان کا کیا حال ہوگا؟

ترے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *