اس قصے کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے۔ یہ شخص اصحابِ کہف کی وفات کے چند سال بعد 452 ء میں پیدا ہوا تھا اور اس نے 474 ء کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعہ کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی جسے ابن جریر طبری نے مختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے۔
ایڈورڈ گبن نے اپنی کتاب ” تاریخ زوال و سقوطِ دولت روم “ کے باب 33 میں ” سات سونے والوں “ کے عنوان کے تحت اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایات سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتے ہیں۔
مثلاً جس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کر اصحابِ کہف غار میں پناہ گزین ہوئے تھے، ہمارے مفسرین اس کا نام دقینوس یا دقیانوس یا دقیوس بتاتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ وہ قیصر ڈیسیس (Decirs) تھا جس نے 249 ء سے 251 ء تک سلطنت روم پر فرمانروائی کی ہے اور مسیح (علیہ السلام) کے پیروئوں پر ظلم و ستم کرنے کے معاملہ میں اس کا عہد بہت بدنام تھا۔
جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام ہمارے مفسرین افسس یا افسوس لکھتے ہیں، اور گبن اس کا نام افسس (Ephesus) بتاتا ہے جو ایشیائے کو چک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندرگاہ تھا، جس کے کھنڈر آج موجودہ ترکی کے شہر ازمیر (سمرنا) سے 20۔ 25 میل بجانب جنوب پائے جاتے ہیں
جس بادشاہ کے عہد میں اصحابِ کہف جاگے اس کا نام ہمارے مفسرین تیذوسیس لکھتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ ان کے بعث کا واقعہ قیصر تھیوڈوسیس (Theodosius) ثانی کے زمانے میں پیش آیا جو رومی سلطنت کے عیسائیت قبول کرلینے کے بعد 408 ء سے 450 ء تک روم کا قیصر رہا۔
دونوں بیانات کی مماثلت کی حد یہ ہے کہ اصحابِ کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے جس رفیق کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا تھا اس کا نام ہمارے مفسرین یملیخا بتاتے ہیں اور گبن اسے یملیخس (Jamblchus) لکھتا ہے۔ قصے کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈیسیس کے زمانے میں جب مسیح (علیہ السلام) کے پیروئوں پر سخت ظلم و ستم ہورہے تھے، یہ سات نوجوان ایک غار میں جا بیٹھے تھے۔ پھر قیصر تھیوڈوسیس کی سلطنت کے اڑتیسویں سال (یعنی تقریباً 445 ء یا 446 ء میں) یہ لوگ بیدار ہوئے جبکہ پوری رومی سلطنت مسیح (علیہ السلام) کی پیرو بن چکی تھی۔
(جاری)
ابو جون رضا