ام المومنین حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا

2007 میں مجھے جنت معلی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ جنت معلی عام دنوں میں زائرین کے لیے بند ہوتا ہے۔ ہمیں ایک اوور ہیڈ برج سے جنت معلی دکھائی گئی۔ ایک مہیب خاموشی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ہم نے جناب خدیجہ اور اوائل اسلام میں رسول اکرم پر ایمان لانے والوں اور ان کی نصرت کرنے والوں کا ذکر کیا اور آنسوؤں کی صورت میں ان کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

آپ کے وجود سے نبی کریم کو ڈھارس تھی ۔ سخت مشکلات میں جب کوئی بات سننے والا نہ ہو اور ہر طرف سے طعن تشنیع اور مضحکہ خیز باتیں سننے کو ملتی ہوں تب ایک غمگسار بیوی کا ساتھ ایک نعمت مرتقبہ سے کم نہیں ۔ اسی وجہ سے نبی کریم جناب خدیجہ کو بہت یاد کرتے تھے اور ان کی سہیلیوں کو اکثر کھانے پینے کی اچھی چیزیں بھجواتے تھے یہاں تک ایک دفعہ جناب ہالہ جو جناب خدیجہ کی بہن تھیں ان کے گھر میں داخل ہونے کے انداز سے رسول اکرم نے بی بی خدیجہ کو یاد کیا کہ وہ بھی اسی انداز سے گھر میں داخل ہوتی تھیں۔

رسول اکرم کے حضرت خدیجہ سے دو بیٹے قاسم و عبداللہ، چار بیٹیاں زینب، رقیہ، ام کلثوم اور حضرت فاطمہؑ تھیں۔ اس بنا پر ابراہیم کے علاوہ پیغمبر اسلامؐ کی باقی اولاد حضرت خدیجہؑ سے ہی تھیں۔

آپ نے اپنا سارا مال اسلام کی راہ میں خرچ کیا اور ہر موقع پر رسول اکرم کے لیے سکون اور اطمینان کا باعث بنی رہیں۔

سیرت ابن ہشام میں مذکور ہے کہ شعب ابی طالب میں جب خاندان بنی ہاشم محصور تھا تو محاصرے کے دوران حضرت خدیجہؑ کے بھتیجے حکیم بن حزام گندم اور کھجوروں سے لدے ہوئے اونٹ لایا کرتے تھے اور بے شمار خطرات اور زحمت و مشقت سے بنی ہاشم کو پہونچا دیتا تھا۔اس کے باوجود بھی کئی کئی وقت فاقہ سے گزارنا پڑتے تھے

آیت اللہ ہاشم معروف حسنی نے سیرت ائمہ اطہار میں جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کا ذکر بڑے ادب اور احترام کے ساتھ کیا ہے۔اور ان کے مطابق شعب ابی طالب میں بھوک سے بیتاب ہوکر کسی درخت کی ڈنٹھل چبانے کی وجہ سے ام المومنین جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا بیمار ہوگئیں۔ شاید وہ ڈنٹھل یا شاخ زہریلی تھی جس نے آپ کو بیمار کیا اور آپ انتقال فرماگئیں۔

افسوس ہے کہ ایسی معظمہ اور بلند پرور شخصیت کو لوگوں نے بھلا دیا اور ان کی وفات کی تاریخ ایک عام مسلمان کو پتا نہیں ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ان کا کردار مسلمان خواتین کو معلوم نہیں ہے۔

اور جن کو ان کی وفات کی تاریخ کا پتا چلا ہے انہوں نے ان کی وفات کے دن کو شہادت سے بدل ڈالا ہے۔ اور اس دن مرثیہ خوانی ، ماتم داری اور مجالس کا اہتمام کیا ہے۔

سیکنڑوں کے حساب سے ننگے دھڑنگے لوگ عزاخانہ پر سینہ کوبی کرتے ہیں۔ اور رمضان کی راتوں میں گلا پھاڑ کر چلاتے ہیں۔

میں نے بہت دفعہ لکھا کہ ملاؤں کے لیے یہ ایونٹس جتنے بھی بڑھ جائیں ، کم ہی رہیں گے

ان ایام میں منبر سے جھوٹ بولا جاتا ہے۔ غلو پھیلایا جاتا ہے ۔اور لوگوں کا مال ہڑپ کیا جاتا ہے۔

پیسہ کمانے اور مؤمنین کی جیب کاٹنے کے لیے یہ بہترین ایام ہیں۔

اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور جناب خدیجہ کی سیرت کو سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

جلوہ نمائے شمع حقیقت ہیں خدیجہ
آئینہ کردار رسالت ہیں خدیجہ
یہ مانتا ہوں ان کو رسالت نہیں ملی
لیکن شریک کار رسالت ہیں خدیجہ

میرا سلام ہو ام المومنین جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا پر۔

روحی و جسمی لکل فدا

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *