غامدی صاحب نے ایک محفل میں خالق و مخلوق پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ
“اس کائنات کے پروردگار اور اس کائنات کا معاملہ ایک حقیقت کے مطالعے کا معاملہ ہی نہیں ہے۔ یہ دونوں بالکل الگ الگ ہیں۔ ان کا باہمی تعلق خالق اور مخلوق کا ہے۔ یہ عالم پروردگار کی گواہی دیتا ہے۔ اس لیے کہ یہ تخلیق ہے جو خالق کا پتا دے رہی ہے ، لیکن یہ حقیقتِ واحدہ نہیں ہے۔ عالم کی کوئی ایک چیز بھی نہیں کہ جسے کسی بھی درجے میں، حقیقت کے درجے میں یا تعینات کے درجے میں ذاتِ خداوندی کے مماثل قرار دیا جا سکے۔‘‘
پھر اگے فرماتے ہیں کہ
“میز یا کرسی کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسے کسی انسان نے بنایا ہے۔ یعنی کرسی یا میز میں ایسا کچھ ہے جو کہ صرف انسان میں موجود ہے دیگر جانوروں میں نہیں ہے”
ہمارے فلسفہ کے استاذ یہاں سوال اٹھاتے ہیں کہ
کسی بھی تخلیق میں ایسا کیا ہوتا ہے جو اس تخلیق کو اس کے خالق سے جوڑتا ہے؟
یہ سمجھنے کے لیے ہمیں اس تخلیق کی ماہیت پر غور کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ انسان اور میز میں فرق ان کے ظاہر میں ہے، اور یہی ظاہر کا فرق غامدی صاحب کے پیشِ نظر ہے جب وہ کائنات اور خدا کی ’دوئی‘ کی بات کرتے ہیں۔
کسی بھی تخلیق میں دو چیزیں شامل ہوتی ہیں: ایک مواد (اوبجیکٹ) اور دوسری وہ بنتر (سبجیکٹ) جو خود مواد میں شامل نہیں ہوتی، بلکہ اس مواد کو عطا کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر میز انسان کے بغیر محض ایک لکڑی ہوتی۔ میز کی بنتر (فام) انسان کا آئیڈیا ہے۔
یعنی انسان کے ذہن میں میز کی بنتر کا ایک خیال آتا ہے اور وہ لکڑی کو اس بنتر میں ڈھال دیتا ہے۔ لہٰذا انسان نے لکڑی میں جو شے شامل کی ہے وہ اس کا آئیڈیا ہے۔ انسان کا آئیڈیا انسان سے الگ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگر آئیڈیا میز سے واپس لے لیا جائے تو وہ صرف ایک لکڑی ہی رہ جاتا ہے۔ اس مثال کو کسی بھی شے تک توسیع دی جا سکتی ہے، حتیٰ کہ کائنات کی تخلیق تک بھی یہ مثال کارآمد ہو گی۔ ان کا یہ دعویٰ ہے کہ کائنات میں کوئی ایک بھی شے ایسی نہیں ہے جسے خدا کے ’’مماثل‘‘ کہا جا سکے۔
یعنی میز کی مثال لیتے ہوئے یہ کہنا کہ میز میں کوئی ایک بھی شے ایسی نہیں ہے جسے انسان کے مماثل کہا جا سکے۔ اس کا سطحی مفہوم تو یہ نکلتا ہے کہ مماثل قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ دو میز ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیے جائیں اور پھر یہ کہا جائے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے مماثل ہیں۔ لیکن مماثلت کا یہ تصور ظاہر تک تو ہے لیکن وہ اس شے کے جوہر تک رسائی حاصل نہیں کر پایا، اور نہ ہی کسی شے کی ماہیت ہی بیان کر پاتا ہے، کیونکہ حقیقت جوہر میں ہے نہ کہ ظاہر میں۔ اور جیسا کہ میں وضاحت کر چکا ہوں کہ میز میں سے آئیڈیا نکال لیا جائے تو وہ محض لکڑی ہی رہ جاتی ہے۔
انسان کو میز سے مماثل ہونے کے لیے میز نہیں بن جانا جیسا کہ بعض دانشور سوچتے ہیں، بلکہ میز کی اس شے میں انسان کے جوہر کو تلاش کرنا ہے جو اسے میز بناتا ہے۔ یہی ’’مماثلت‘‘ کے فلسفیانہ مفاہیم ہیں۔
اس دلیل کا دائرہ وسیع کریں اور اسے کائنات تک وسعت دیں تو اس نکتے کی تفہیم مزید آسان ہو جائے گی۔
میں جب آئیڈیا کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو اس کے دو مفاہیم ہیں: اوّل ایک خیال کا پیدا ہونا، اور دوسرا اس خیال کی عملی جہت جس سے کوئی تخلیق ممکن ہو سکتی ہے۔ صرف اسی صورت میں آئیڈیا ’’ایبسولیوٹ‘‘ آئیڈیا کہلا سکتا ہے۔
ہیگل کائنات کو آئیڈیا کہتا ہے۔ اسپنوزا اس کو شے کہتا ہے۔ اور وحدت الوجود والے کائنات کو ہی خدا کہتے ہیں۔ لیکن وہ حسیات کو بروئے کار لاتے ہیں۔ یعنی انہوں نے جہاں دیکھا ان کو خدا نظر آیا۔
تو اگر آپ کو خدا کو جاننا ہے تو اس کائنات میں موجود اس کے جوہر کو تلاش کریں۔
امید ہے خدا مل جائے گا
ابو جون رضا