2017 میں کوکو نامی ایک انیمیٹڈ مووی آئی تھی۔ جس میں میگل نامی بچہ جو میوزک کا شوقین ہوتا ہے ، لینڈ آف ڈیڈ پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اپنے مرحوم دادا سے ملتا یے جو میوزیشن تھے۔ سال میں ایک دن اس کی فیملی “ڈے آف ڈیڈ” یعنی مرے ہوؤں کا دن مناتی تھی اس دن مٹھائیاں پھول اور مرحومین کی تصویریں سجا کر ان کو یاد کیا جاتا تھا۔ اس فلم نے باکس آفس پر بہت کامیابی سمیٹی تھی۔
شعبان کے مہینے میں اہلبیت سے روایات مروی ہیں کہ اس ماہ کچھ دن روزے رکھے جائیں اور کچھ راتوں میں عبادت کی جائے۔ یہ اصل میں ماہ رمضان کی تیاری ہے جس میں پورے مہینے روزہ رکھا جاتا یے اور راتوں کو عبادت کی جاتی ہے۔
نیمہ شعبان کے حوالے سے کچھ ایسی روایات نقل کی گئی ہیں جن سے محسوس ہوتا ہے کہ جو فضیلت لیلتہ القدر کو حاصل ہے کم و بیش وہی فضیلت نیمہ شعبان کو حاصل ہے۔
جبکہ سورہ دخان میں جس رات کا تذکرہ ہے وہ لیلتہ القدر کی ہی رات ہے جس میں قران نازل ہوا جبکہ اس کو نیمہ شعبان سے منسوب کرنے والی روایات مشکوۃ اور ترمذی میں مل جاتی ہیں۔ جو ضعیف ہیں۔
اس رات میں رسول اکرم کا کوئی ایسا خاص عمل ثابت نہیں ہے جو انہوں نے کیا ہو اور ساتھ ہی اس کو کرنے کا امت کو حکم دیا ہو۔
اہل تشیع میں بھی اہل تسنن سے روایات در آئی ہیں جن کی وجہ سے نیمہ شعبان کو قبرستان جانا اور قبروں میں چراغاں کرنا انکے یہاں بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہ اعتقاد بھی بعض گھرانوں میں پایا جاتا ہے کہ مردے اس رات اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ اس لیے ان کی فاتحہ کا بطور خاص انتظام کیا جائے۔ مفاتیح الجنان میں بھی شب برائت میں رات کو نماز اور دن میں روزہ رکھنے کی تاکید ہے ۔ دو چار بلا سند نمازیں بھی لکھی ہیں۔ اس کے علاوہ زیارت امام حسین اور زیارت امام مہدی جو خاص اس رات کو پڑھی جائے، لکھی ہوئی ہے۔
ان اعمال کے علاوہ اس رات حلوہ پکایا جاتا یے جس پر مختلف نذر نیاز دی جاتی ہیں۔ جیسے وہ مردے جن کی اولاد نہیں تھی یا جن کی شادی نہیں ہوئی تھی اور وہ بناء بیوی کے مرگئے۔ سید الشہداء حضرت حمزہ کی نذر، زعفر جن کی نذر، شہدائے کربلا، اسیران کربلا، حضرت عباس، پنجتن پاک وغیرہ کی نذر دی جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ میرے محلے میں شیعہ گھروں میں مجھے نیمہ شعبان میں نذر دینے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ ایک صاحب اللہ ان پر کرم فرمائے، ایک کلو گلاب جامن کا ڈبا لے آتے تھے اور ایک ایک گلاب جامن سامنے رکھتے جاتے تھے اور اپنے ایک ایک مردے کا نام بتا کر نذر دلواتے تھے۔ دو چار گلاب جامن کے بعد میں اتنا بیزار ہوجاتا تھا کہ بس ہاتھ اٹھا کر ایکٹنگ کرتا تھا اور کچھ پڑھتا نہیں تھا ۔
ابتداء میں ہی ایک ہی مرتبہ سورہ الحمد اور تین مرتبہ سورہ اخلاص کی تلاوت کرکے دعا کرتا تھا کہ ان صاحب جتنے مرحومین ہیں۔ ان سب کو اس کا ثواب پہنچے۔ شاید وہ صاحب نذر کی ریپلیکا کے قائل نہیں تھے ۔ یعنی ایک مردے کو ایک وقت میں جو مٹھائی سامنے رکھی گئی ہے اسی کو پہنچے گی ۔ اگر زیادہ کے نام لیں گے تو ایک مردہ ہی مٹھائی سے لطف اندوز ہوگا اور باقی اس کا منہ تکیں گے۔
میری والدہ نے کبھی بھی اس رات مجھے پٹاخے جلانے نہیں دیے۔ وہ مجھے گھر سے باہر بھی نکلنے نہیں دیتی تھیں۔
اللہ بخشے میرے نانا سید ظہیر الحسن کو پتا تھا کہ مجھے اس کام کی اجازت نہیں ہے تو وہ شب برات کے بعد میرے لیے پھلجھڑیاں اور انار وغیرہ بجھوا دیتے تھے جس کو میں گھر میں جلا کر خوش ہوجاتا تھا۔
آج کل تو وہ طوفان بدتمیزی اس رات کو رواج پا گیا ہے کہ پٹاخوں اور دھماکوں سے کان پڑی اواز سنائی نہیں دیتی۔ قبرستان میں چراغاں کا انتظام کیا جاتا ہے اور قبرستان کے باہر کھیوڑہ اور گلاب کے پھول لیے لوگ بیچنے کے لیے بیٹھے ہوتے ہیں تاکہ زائرین اپنے مرحومین کی قبور کو خوشبو اور گلاب سے معطر کر سکیں۔
اگرچہ پورا مسلمان تو نہیں لیکن
میں اپنے دین سے رشتہ تو جوڑ سکتا ہوں
نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ کچھ نہ سہی
شب برات پٹاخہ تو چھوڑ سکتا ہوں
سننے میں آیا ہے کہ اس سال کسی مشہور امام بارگاہ میں اب امام مہدی کی مہندی بھی نکالی جائے گی۔
سن کر حیرت نہیں ہوئی کیونکہ فضائل اعمال کے نام پر یا “کیا حرج ہے” کہہ کر بے انتہاء چیزیں رواج پاگئی ہیں۔ جن کو بعد میں روکنا ناممکن ہوتا ہے۔
سنت رسول اکرم کا پاس جس امت میں نہ ہو وہ جو کرے وہ کم ہی کہلائے گا۔
دعا ہے پروردگار ہمیں سنت رسول اکرم پر چلنے کی اور بدعات و خرافات سے بچنے کی توفیق عنایت فرمائے
ابو جون رضا
Gud research
Copy sir