میں نے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ حکیم فیلو پر کچھ لکھوں گا بلکہ وقت نکال کر اس پر تحقیق کروں گا۔ مجھے ابھی تک تحقیق کا زیادہ موقع تو نہیں ملا لیکن جو طالب علمانہ طور پر اس شخص کے حوالے سے میں سمجھا ہوں۔ وہ مختصرا بیان کردیتا ہوں ۔
یہ وہ نابغہ ہے جس کے علمی اور فکری اثرات اسلام پر اتنے گہرے مرتب ہوئے ہیں کہ پورے باطنی ٹیکسٹ کے پیچھے ان صاحب کے افکار کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ تصوف و عرفان کے بڑے بڑے نام اس شخص کے افکار سے دانستہ یا نادانستہ متاثر ہیں۔
شیعت کے ٹیکسٹ میں اس شخص کے افکار کی جھلک مولا علی کے اقوال کی شکل میں موجود ہے۔ نہج البلاغہ میں بھی مجھے اس کی فکر کے اثرات نمایاں طور پر محسوس ہوتے ہیں۔
یہ شخص عام پبلک کی نگاہ سے اوجھل اس وجہ سے رہا ہے کہ اس کو فلسفہ سے وابستہ لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔
مجھے باطنی ٹیکسٹ سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ میں نے پراسرار اور خفیہ باطنی فرقوں کے متعلق کافی کتابیں ڈھونڈ کر پڑھی ہیں۔ اسی جستجو میں میری پہنچ فیلو تک ہوئی اور مجھے اس شخص کے افکار سے واقفیت حاصل ہوئی۔
اس کے افکار کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کرنے سے پہلے میں اس کا تھوڑا سا تعارف پیش کردوں۔
فیلو 20 سال قبل مسیح اسکندریہ میں پیدا ہوا۔ یہ ایک مصنف تھا اور مذہبی فلسفہ سے وابستہ تھا۔ بلکہ اس کو مذپبی فلسفہ کا بانی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کی فکر کے اثرات پال اور یوحنا پر بھی پڑے ہیں۔ اس نے وحدتِ الٰہی اور یونانی فلسفہ کا امتزاج کرنے کی کوشش کی۔
فیلو کی یہ کوشش جس نے مذہب و فلسفہ ، عقل و نقل میں مطابقت پیدا کی تھی اس نے بعد میں مسیحی اور مسلمان صوفیاء اور حکماء کو بہت متاثر کیا ۔ مسلمان صوفی مفکرین حلاج ، ابن عربی ، غزالی ، رومی ، عبد الکریم الجیلی وغیرہ سب نے اس سے استفادہ کیا ۔ ان صوفیاء کی تصانیف میں بہت مشکل مسئلے حکیم فیلو کے تصورات کی وضاحت سے حل ہو جاتے ہیں ۔
افلاطون کے اثرات فیلو پر بہت گہرے ہیں۔ خاص طور پر اس کا نظریہ اعیان تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ فیلو کی فکر میں موجود ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے افلاطون کے نظریہ امثال کی مختصر وضاحت پیش کردوں۔
افلاطون اس دنیا کے متعلق کہتا ہے کہ یہ دنیاحقیقی نہیں ہے بلکہ یہ حقیقی دنیا کا ایک عکس ہے ۔ جس طرح آئینے میں کسی شخص کا عکس نظر آتا ہے ویسے ہی یہ دنیا بھی حقیقی دنیا کا ایک عکس ہے۔
اس کو ایک مثال سے سمجھیے
ہمیں ایک پھول اچھا لگتا ہے تو ہم اس کے پیچھےکھنچے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا وجود غیر کامل ہے اسی لئے ہم اس کے پیچھے جاتے ہیں تاکہ جو نامکمل پن ہمارے اندر ہے وہ پھول سے پورا ہوجائے یا پھر ہمیں خواب نظر آتے ہیں جو سچے بھی ہوتے ہیں اور کبھی کسی شخص کو دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ ہم اسے پہلے مل چکے ہیں یا ہم نے پہلے اسے دیکھا ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا تو افلاطون کے مطابق یہ سب کچھ حقیقی دنیا میں ہوتا ہے وہاں بھی ہم جیسے لوگ ہیں ۔ ان کے ساتھ یہ سب ہوچکا ہے ،چونکہ ہم ان کا عکس ہیں تو ہمارے ساتھ بھی ہورہا ہے۔
فیلو نے اپنے فلسفہ کا آغاز افلاطون کے نظریہ اعیان (عین کی جمع) سے کیا۔ اس کا خیال تھا کہ اعیان کے معروضی وجود کا نظریہ محض افلاطون کی فکر نہیں بلکہ اسرائیل کی دینی روایت کا جزو ہے ۔
اس کےلیے اس کے پاس بہترین دلیل صحیفہ خروج کی آیت ہے ۔
“اور مسکن اور اس کے سارے سامان کا جو نمونہ میں تجھے دکھاؤں ٹھیک اس کے مطابق اسے بنانا “
اس آیت سے یہ حقیقت واضح ہے کہ مسکن کا نمونہ یا عین (idea) ازل سے موجود تھا ۔
یہ روایت دو مختلف شکلوں میں بنی اسرائیل میں موجود تھی ۔ ایک بیان کے مطابق یہ نمونہ یا عین ( idea ) تخلیق کائنات سے پہلے عالم وجود میں آ چکا تھا ، دوسرے بیان کے مطابق اس عین ( idea ) کی تخلیق کا خیال کائنات کی تخلیق سے پہلے خدا کے ذہن میں آ چکا تھا یا موجود تھا۔
اس لحاظ سے خدا نے کائنات کی تخلیق سے پہلے اس عین ( idea ) کو حقیقی اور غیر مادی وجود کی حیثیت سے پیدا کیا تھا اور پھر اس کی کاپی کے طور پر تخلیق کائنات کے بعد عالم وجود آیا۔
اس عینی مسکن کےلیے یہودیوں کے ہاں عام طور پر بیت المقدس معلی یا قدس اعلیین کی اصطلاحات مستعمل تھیں ۔
فیلو کی تخلیق کا ماڈل بھی افلاطون سے ماخوذ ہے لیکن اس کے خیال میں خدا بذات خود تخلیق کا وسیلہ نہیں بلکہ لوگوس “Logos” ہے۔ فیلو کے مطابق لوگوس خدا کا سایہ ہے جسے ساری تخلیق کے لیے بطور آلہ اور نمونہ استعمال کیا گیا۔
لوگوس نے بے صفت بے شکل مادے کو چار ازلی عناصر میں تبدیل کیا۔ خدا نے اس جوہر سے ہر چیز تخلیق کی اور خود کسی کو بھی نہ چھوا کیونکہ بدہیئت اور بد وضع مادوں کو چھونا خدا کے شایان شان نہیں تھا۔
فیلو خدا کی ہستی کے قابل ادراک اور اس کے جوہر کے نا قابل ادراک ہونے کے درمیان فرق بیان کر نے والا پہلا شخص تھا۔
اس کے علاوہ مذہبی صحائف میں موجود واقعات کو تمثیلی رنگ میں پیش کرنے میں اس شخص کا ثانی نہیں تھا
اس کی مثال پرانے صحیفہ میں موجود اس آیت کی تشریح سے سمجھیے
پیدایش ۳:۲۱ میں لکھا ہے:
”خداوند خدا نے آؔدم اور اُس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُن کو پہنائے“
یونانیوں کا نظریہ تھا کہ خدا کپڑے بنانے جیسا عام کام تو نہیں کرتا۔
اس لئے فیلو نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اس کو تمثیل کی شکل دی۔ اُس کا کہنا تھا کہ
”چمڑے کا کُرتا ایک علامت ہے جو انسان کی کھال کی طرف اِشارہ کرتی ہے۔ جب خدا نے ذہن کو بنایا تو اُس نے اِسے ’آدم‘ کا نام دیا۔ جب اُس نے انسان میں دَم پھونکا تو اُس نے اِسے ’زندگی‘ کہا۔ آخرکار اُس نے جسم بنایا تو اسے تمثیلی طور پر ’چمڑے کا کُرتا‘ کہا۔“
اس طرح فیلو نے پیدایش ۳:۲۱ کو فلسفیانہ طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔
بعض مفسرین قرآن کریم میں فرشتے، شیطان اور خدا کے مکالمہ کو تمثیلی حیثیت سے بیان کرتے ہیں
فیلو کے مطابق انسان جان اور روح کا مرکب ہے۔ جب جان الگ ہوتی ہے تو وہ جسم سے رہائی پاتی ہے۔ اور زندہ ہوجاتی ہے۔ (لوگ سوئے ہوئے ہیں، جب مریں گے تب جاگیں گے۔ جسم روح کے لیے قید خانہ ہے)
خیال کیا جاتا ہے کہ فیلو کے کلام یعنی لوگوس کی وجہ سے عیسائیت نے تثلیث کا عقیدہ اپنایا۔ کیونکہ قدیم عیسائی مفکرین کے مطابق فیلو نے عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا۔
ابو جون رضا
بہت بہترین لکھا ہے سر