تفہیم المغرب (1)

مغربی فکر کی تاریخی تشکیل کے مطالعے میں ہم نے آج پہلے لیکچر میں یونان کے عہد کا جائزہ لیا۔ میں مختصرا گفتگو کو پوسٹ کی شکل میں پیش کرتا رہوں گا۔

قدیم یونان ایک تہذیب ہے جو یونانی تاریخ سے متعلق ہے جس کی مدت تاریخ آٹھویں صدی سے چھٹی صدی قبل از مسیح سے 146 قبل مسیح تک اور رومیوں کی جنگ کورنتھ میں یونان پر فتح تک محیط ہے۔ اس مدت کا درمیانی دور یونان کا کلاسیکی دور ہے جو پانچویں تا چوتھی صدی قبل مسیح کے دوران پھلا پھولا۔

میڈی ٹیرین سی یعنی بحر اوسط جس کو کہا جاتا یے اس کے پاس یونانیوں نے بارہ شہروں کا سلسلہ آباد کیا۔ جو ایوینیا کے بارہ شہر “Dodecapolis of Ionia” کہلایا۔ یہ توانائی اور عقل و خرد سے مالا مال قوم تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چھ سو سال قبل مسیح میں تھیلیس نے مالیتھس میں یونانی فلسفہ کے پہلے مکتبہ فکر کی بنیاد رکھی۔ اور افلاطون سے تین صدی پہلے ہیرا کلیتس نے فلسفہ ارتقاء پیش کیا۔ اس فلسفی کے الفاظ آج بھی مسحور کن ہیں ۔

کچھ بھی “ہے” نہیں بلکہ “بنتا” ہے۔
ہر چیز بہاؤ میں ہے۔
آپ ایک بہتی ہوئی ندی کے پانی میں دو بار اپنا پاؤں نہیں ڈال سکتے”

فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذر ہ کائنات

1830 میں ہیگل کا پیش کردہ نصف فلسفہ یہاں صرف دو تین جملوں میں سمٹا ہوا ملتا ہے۔

یونانی آزاد قوم تھے۔ انہوں نے خود پر بادشاہت مسلط نہیں کی۔ وہ اس حد تک انسانی آزادی کے قائل تھے کہ انہوں نے ایرانیوں کو خود پر مسلط نہیں ہونے دیا یہاں تک کہ ایک زبان، ایک کلچر ہوتے ہوئے ایمپائر نہیں بنائی بلکہ شہری ریاستیں تشکیل دیں۔

ان کا ادب اور تحریری ورثہ ہم تک پہنچا ہے۔ ہومر کی اوڈیسی اور ایلیاڈ آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ تھیٹر ، اولمپکس ، مجسمہ سازی یونانیوں کی ہی ایجاد ہے۔

رومیوں نے جب یونان فتح کیا تو اعتراف کیا کہ اصل میں یونانیوں نے ہمیں مفتوح کرلیا تھا کیونکہ اس وقت رومی تہذیب و تمدن سے ناواقف تھے اور انہوں نے یونانیوں سے ہی علم و خرد کو استعمال میں لانا سیکھا۔

دنیا کی تقریبا ہر تہذیب پر یونانیوں کا اثر پڑا ہے۔ مسلمانوں نے مامون کے دور میں ان کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا اور ان سے منطق کا استعمال سیکھا۔

یونانیوں نے سات سو سال قبل مسیح سیاسی سطح پر کئی تجربات کیے ۔ انہوں نے آمریت کا تجربہ کیا اور پھر اس کو مسترد کردیا، اسی طرح سے انہوں نے جمہوریت کا تجربہ بھی کیا۔ شہری کونسلز اور سینٹ کا طریقہ کار بھی آزما کر دیکھا ۔

یونانیوں کا مذہب دیوی دیوتاؤں کی پرستش تھا۔وہ ان کے حوالے سے اساطیری کہانیوں پر یقین رکھتے تھے ۔ ڈیلفی جو اس زمانے کا سب سے بڑا مندر یا عبادت گاہ سمجھی جاتی تھی اس کا پروہت کبھی کبھار لوگوں کو بتاتا تھا کہ اس کو اساطیری انداز میں دیوی دیوتا کی طرف سے پیغام ملا ہے ۔ وہ پیغام اشاراتی اور گنجلک زبان میں ہوتا تھا اور اس کو ڈی کوڈ کرنا پڑتا تھا جو زیادہ تر کسی سوال کے جواب پر مشتمل ہوتا تھا۔ یہ وحی کی ایک شکل تھی جو دیوتا کی طرف سے معبد کے سب سے بڑے پروہت کو ہوتی تھی۔

دیوی دیوتا کیونکہ روز مرہ زندگی کے حوالے سے احکامات جاری نہیں کرتے تھےاس وجہ سے قوانین اور تمدن کے پھیلاؤ کے لیے یونانیوں کو عقل کا سہارا لینا پڑا جس کی وجہ سے انہوں نے ایک بہترین تہذیب کی بنیاد ڈالی۔ فلسفیوں نے اساطیری کہانیوں اور دیوی دیوتاؤں کی کہانیوں پر اعتراض کیے اور کہا کہ یہ کیسے دیوتا ہیں جو بد اخلاق ہیں اور ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے ہیں۔ اس طرح سے بہت جلد مذہب کو انہوں نے یونان سے اکھاڑ پھینکا۔

ان کے یہاں نبی یا کسی رسول کا تذکرہ نہیں ملتا۔ سینٹ آگسٹائن جو 354 میں پیدا ہوئے ان کی کتاب”City of Gods” میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ افلاطون کی فکر میں اسرائیلی پیغمبروں کے اثرات ملتے ہیں کیونکہ افلاطون نے سفر بہت کیا ہے اس لیے ممکن ہے کہ اس نے الہامی پیغمبروں کی فکر کو پڑھا اور سمجھا ہو، اگرچہ افلاطون نے اس کا کبھی ذکر نہیں کیا۔

میں نے اس زمن میں سوال پیش کیا کہ اگر الہامی احکامات یونان میں بھی فروغ پاتے تو کیا یونانی اسی طرح عقل و شعور کو ارتقاء دے پاتے جس طرح سے انہوں عقل کا استعمال کیا؟

اس کے جواب میں استاذ معظم کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہوسکتا ہے وہ تمدنی طور پر بہت جلد ترقی نہ پاتے جس طرح سے عقل کے استعمال سے انہوں نے بہت تیزی سے مراحل طے کیے۔ لیکن بہرحال یہ ایک قیاس ہی کہلائے گا۔

(پس نوشت : ہم مسلمان کسی فلسفی کو نبی تصور کرکے ہی اپنا دل خوش کرلیتے ہیں)

(جاری)

3

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *