دعائے ندبہ پر سب سے بڑا اعتراض اس کی سند ہے۔ علمائے اہل تشیع اس کو کئی واسطوں سے امام جعفر صادق تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام جعفر صادق کے دور میں کوئی امام غیبت میں نہیں تھا تو اس دعا کی تعلیم کس وجہ سے دی گئی ؟ کیا یہ کہا گیا کہ جب ہمارا قائم سو دو سو سال بعد غیبت میں چلا جائے تو اس کے ماننے والوں کو جمعہ کے روز یہ دعا پڑھ کر آہ فغاں کرنا چاہیے؟
بعض علماء جو اس اعتراض سے بخوبی آگاہ ہیں انہوں نے اس دعا کو ناحیہ مقدسہ سے جوڑ دیا ہے کہ یہ دعا تو خود امام مہدی نے جاری کی ہے۔ افسوس کہ یہ دعا حقیقت میں امام مہدی کی جانب سے جاری ہوئی ہے ، اس بات کو جانچنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
اس دعا کی قوت کو بہت ساری کتابوں سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جبکہ بہت ساری کتب میں کسی بات کا ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بات درست ہے۔
اسی لیے پہلی پوسٹ میں بطلیموسی ہیئت افلاک کی دلیل دی گئی کہ اس زمانے میں جو تفاسیر اور کتابیں لکھی گئی ان میں اس انداز سے بات کی جاتی تھی کہ وہ فلکیات کے نظریہ سے نہ ٹکرائے۔
اگرکوئی قدماء کی تفاسیر اور اقوال لے ائے کہ جناب اتنے سارے علماء زمین کے ساکن ہونے کے قائل ہیں تو کیا مان لیا جائے گا؟ جبکہ وہ قران سے زمین کا ساکن ہونا ثابت کرتے تھے اور بڑے فخر سے بیان کرتے تھے کہ قران نے تو پہلے ہی بتا دیا تھا ۔ سائنس آج بتا رہی ہے۔
اس دعا کے بعض الفاظ سے لگتا ہے کہ اسے کیسانیہ فرقے کے کسی شخص نے گھڑا ہے۔
کیسانیہ اہل تشیع کے ایک ایسے فرقہ کا نام ہے جو پہلی صدی ہجری کے پچاس سال بعد شیعوں کے درمیان پیدا ہوا اور تقریباً ایک صدی تک چلتا رہا پھر بالکل ختم ہو گیا۔ لیکن اس کے بہت سے عقائد و نظریات کو باقی فرقوں نے اپنا لیا۔
کیسانیہ کی اکثریت اس بات کی معتقد ہے کہ محمد حنفیہ کی وفات نہیں ہوئی ہے بلکہ وہ کوہ رضوی میں مخفی اور غائب ہیں ایک مدت کی غیبت کے بعد آخر میں ظہور کریں گے اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ وہ لوگ اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ محمد حنفیہ وہی مہدی موعود ہیں اور مکہ معظمہ سے ظہور کریں گے۔
وہ لوگ کہتے ہیں:ہر دن صبح و شام محمد حنفیہ کی خدمت میں اونٹ آتے ہیں وہ ان کے دودھ اور گوشت کو کھاتے پیتے ہیں۔
سید اسماعیل حمیری محمد حنفیہ کی مدح میں کیسانیہ کے عقائد کی بنیاد پرنظم کیے وہ انہیں اشعار کے ضمن میں کہتے ہیں :
یا شعب رضوی ما لمن بک لا یری و بنا الیہ من الصّبابة اٴولق حتی متیٰ، و الیٰ متیٰ و کم المدیٰ یا بن الوصیّ واٴنت حیّ ترزق
اے غار رضوی! تمہارے اندر قیام کرنے والا کیسا ہے جو دکھائی نہیں دیتا،جب کہ ہم اس کے عشق میں دیوانے ہو گئے ہیں۔ اے فرزند وصی! کب تک اور کس زمانہ تک اور کتنی مدت تک زندہ رہیں گے اور رزق کھاتے رہیں گے؟
اور اب دعائے ندبہ کا متن ملاحظہ فرمائیں:
”لیت شعری اٴین استقرّ ت بک النّوی؟بل اٴیّ اٴرض تقلّک اٴو ثری؟ اٴبرضوی او غیرھا اٴم ذی طوی؟ عزیز علیّ ان اٴریٰ الخلق و لا تری․․․․“
”اے کاش مجھے معلوم ہوتا کہ تیری قیام گاہ کہاں ہے اور کس سر زمین نے تجھے بسا رکھا ہے ؟ مقام رضوی ہے ؟یا مقام طوی ہے ؟میرے لیے یہ بہت سخت ہے کہ ساری دنیا کو دیکھوں اور تو نظر نہ آئے ․“
اس مقام پر شیعہ علماء نے کوشش کی ہے کہ مقام رضوی کو امام مہدی کی جاہ پناہ قرار دیں اور روایات سے ثابت کریں کہ یہ مقام غیبت کی جگہوں میں سے ایک ہے لیکن یہ امام محمد حنفیہ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ امام مہدی کی جائے پناہ میں سے ایک ہے۔
اب یہ مقام غیبت محمد حنفیہ کا ہے یا امام مہدی کا ، اس بات کو جانچنے کا بھی کوئی زریعہ نہیں ہے۔
جیسے جزیرہ خضراء کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں بھی امام مہدی کے لشکر کے لوگ اور ان کی اولادیں رہتی ہیں۔ اور ہر جمعہ کو ان کے لشکر کے کمانڈر اسلحہ سے لیس ہوکر وہاں جمع ہوتے ہیں اور جب ظہور نہیں ہوتا تو غم میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔ تفصیل کے لیے بحار الانوار کی جلد 52 کی طرف رجوع کیا جائے۔
کیسی تعجب والی بات ہے کہ اس طرح کے کام کیا آسمان یا بلیک ہول میں کام انجام پاتے ہیں کہ دنیا کو خبر نہیں؟ آج خلیہ کی اندرونی دنیا کو لوگ آنکھ سے ملاحظہ کر رہے ہیں اور یہ کمانڈر اور اسلحہ وغیرہ دنیا کی انکھ سے پوشیدہ ہے
یہ ساری فوجی ڈرل ہوتی کہاں ہے؟
کیا وہ فوجی بھی غیبت میں ہیں؟ امام کی پوری اولاد اور بیویاں سب غیبت میں ہیں؟
اللہ ان کو ہدایت دے، قران کو چھوڑ کر کن مجہول دعاؤں کے پیچھے عوام کو لگادیا۔
افلا تعقلون
ختم شد
ابو جون رضا