دل کے ٹکڑے

2015 میں ممبئی کی رہائش پزیر شردھا نامی لڑکی کی بمبلی ایپ کے زریعے ایک لڑکے آفتاب امین پونا والا سے ملاقات ہوئی۔ بمبلی ایک ڈیٹنگ ایپ ہے جس کا استعمال لڑکے لڑکیاں بوائے فرینڈ ،گرل فرینڈ اور ڈیٹنگ وغیرہ کے لیےکرتے ہیں۔

لڑکا ایک فوڈ بلاگر تھا اور اس کے اٹھائیس ہزار فالورز تھے۔ دونوں کی دوستی ہوئی ، کچھ عرصہ گزرا اور پھر لڑکی نے 2019 میں ماں باپ کو بتایا کہ وہ آفتاب سے محبت کرتی ہے اور وہ اس کے ساتھ لیو ان ریلشن شپ میں رہنا چاہتی ہے۔ ماں باپ کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ باپ کی بیٹی کے ساتھ قربت نہیں تھی ، اور لڑکی اپنے چچا کے زیادہ قریب تھی۔ گھر والوں کے سمجھانے کے باوجود لڑکی کا یہ کہنا تھا کہ وہ 25 سال کی ہوگئی ہے اور اس کو اپنی زندگی کے فیصلے خود لینے کا حق حاصل ہے۔

شردھا نے اپنا گھر چھوڑا اور لڑکے کے ساتھ رہنے لگی۔ کچھ عرصے بعد یہ لوگ ممبئی چھوڑ کر دہلی میں ایک فلیٹ کرائے پر لیکر رہنے لگے۔ بھارت میں کپلز کا اس طرح سے ساتھ رہنا اب ایک عام بات یے اور مذہب وغیرہ ان معاملات میں ایک ثانوی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔

کچھ عرصے بعد لڑکی کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ جس پر لڑکی اپنے والدین کے گھر آئی اور بعد میں باپ سے ملنے ایک دو دفعہ ممبئی آئی۔ اس نے ایک دفعہ باپ کوبتایا کہ آفتاب اس کو مارتا پیٹتا ہے اور اب ان کے تعلقات پرانے جیسے نہیں رہے۔ باپ نے اس کو پیشکش کی کہ وہ واپس گھر آجائے مگر لڑکی نے باپ کی بات کو قبول نہیں کیا۔

آفتاب اس کو مارتا پیٹتا تھا اور یہ بات شردھا نے اپنی ایک دوست کو بھی بتائی تھی۔لیکن شاید اچھے وقت کی آس میں اس نے آفتاب کے ساتھ رہنا نہیں چھوڑا ۔

آفتاب کا کہنا یہ تھا کہ شردھا کا اصرار تھا کہ آفتاب اس سے شادی کرلے اور اس بات پر ان کے درمیان مستقل جھڑپ ہوتی رہتی تھی۔ جس سے آفتاب تنگ آگیا تھا۔

مئی 2022 میں ان کے درمیان زبردست جھگڑا ہوا اور آفتاب نے اس دن غصے میں لڑکی کا گلا دبایا اور اس وقت تک دبائے رکھا جب تک اس کی جان نہیں نکل گئی۔

آفتاب کا کہنا تھا کہ لڑکی زبان بہت غلیظ استعمال کرتی تھی جس کی وجہ سے وہ طیش میں آگیا اور اس لڑکی کو مار دیا۔

انسان کو غصہ اترنے کے بعد احساس ہوتا یے کہ اس سے کوئی غلط فعل سرزد ہوگیا یے۔ آفتاب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس کو جیل کی کال کوٹھری اور پھانسی کا پھندہ نظر آنے لگا۔

پھر اس کو ایک ترکیب سجھائی دی۔

اس نے قریبی الیکٹرونکس کی دکان جاکر فرج خریدا اور اس کو لاکر گھر میں رکھا۔ پھر اس نے شردھا کی لاش کے 35 ٹکڑے کیے۔ اور ان کو فرج میں رکھ دیا۔ اس درمیان میں وہ سوچتا رہا کہ کس طرح سے ثبوت مٹائے جائیں۔ وہ اسی کمرے میں کئی دن تک اٹھتا بیٹھتا رہا جس میں اس نے شردھا کو مارا تھا۔

وہ پروفیشنل کلر نہیں تھا۔ اس نے ایسڈ سے خون کے دھبے صاف کیے۔ مگر پھر بھی جسم کے باریک حصے ٹوائلٹ کے کچھ حصوں میں موجود رہ گئے ۔ اس لڑکی کا سر بھی فرج میں رکھا رہا جس کو وہ باربار فرج کھول کر دیکھتا تھا۔

اس قدر بھیانک واردات کے بعد ایک عام آدمی کے دل و دماغ میں بھونچال برپا ہوجاتا ہے۔ غم غلط کرنے کے لیے آفتاب نے ڈیٹنگ ایپ کے زریعے دوبارہ ایک لڑکی کو ڈیٹ پر بلایا اور پھر اس سے ملاقات کے بعد اس کو لیکر اپنے فلیٹ آگیا اور اس کے ساتھ اسی کمرے میں وقت گزارا جس میں کبھی شردھا اس کے ساتھ رہتی تھی۔

آفتاب لڑکی کے جسم کے مختلف حصوں کو بلیک فوائل میں لپیٹ کر روزانہ رات بارہ ایک بجے کے قریب نزدیک جنگل جاتا تھا اور تھوڑے تھوڑے جسم کے حصے فوائل سے نکال کر مہر ولی جنگل میں پھینک آتا تھا۔ قریبا اٹھارہ دن آفتاب نے یہ کام بلا ناغہ انجام دیا۔

اس درمیان آفتاب لڑکی کا سوشل میڈیا اکاوئنٹ موبائل پر استعمال کرتا رہتا تھا تاکہ لڑکی کی سہیلیوں اور اقرباء کو کسی قسم کا شک نہ ہو۔

لیکن ہوا کچھ یوں کہ شردھا کی ایک گہری دوست نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو اس کا موبائل سوئچڈ آف ملا۔ وہ دو مہینے تک شردھا سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر رابطہ نہ ہوا۔ اس کو شک ہوا اور اس نے شردھا کے باپ کو بتایا کہ پچھلے دو مہینے سے شردھا کا موبائل فون آف ہے۔ جس پر اس کے والد نے ممبئی میں پولیس میں کمپلین درج کی۔ اور اس کے چھ مہینے بعد آفتاب دہلی میں پکڑا گیا۔ اور اس نے جرم قبول کرلیا۔

اس کیس نے انڈیا کی عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اور وہاں ڈیٹنگ ایپس اور میڈیا کی بے پناہ آزادی پر سنجیدہ حلقوں میں سوال اٹھ رہے ہیں۔

پاکستان میں بھی ڈیٹنگ ایپس کام کررہی ہیں اور اب سوشل میڈیا پر حلال ڈیٹنگ کے نام سے اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ رشتے کرانی والی سائٹس بھی اپنے پریمیم ممبرز کو مختلف پروفائل دکھاتی ہیں جن کے زریعے لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ اور دوستی سے لیکر رشتہ داری تک سارے معاملات انجام پا سکتے ہیں۔

دل لگانے ہم چلے تھے دل کے سو ٹکڑے ہوئے
کیا کہیں اک عشق میں کار جنوں کتنے ہوئے

ہم کو لگتا تھا نکل آئے ہیں سائے سے ترے
لوگ لیکن پوچھتے ہیں کیا تھے تم کیسے ہوئے

بیچ رستے میں کہا جب ہمسفر نے الوداع
لوٹ کر ہم بھی چلے نقش قدم گنتے ہوئے

ابو جون رضا

1

1 thought on “دل کے ٹکڑے”

  1. جعفر حسین کھوسہ

    ڈئیر ایسے حالات میں مطلب متعدد سوشل سائیٹس میں کیسے اولادوں کی تربیت کی جائے ؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *