زمین پر خلیفہ

انبیاء کے قرآنی قصوں پر گفتگو جاری تھی۔ قران کریم میں ارشاد ہے کہ

وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ

( سورہ بقرہ آیت 30)

ترجمہ:

اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔

یہاں انی جاعل فی الارض خلیفتہ کے الفاظ ہیں۔ اس زمن میں دو نظریے بیان کروں گا۔

ایک نظریہ یہ ہے کہ انسان خدا کا نائب ہے۔ اور خدا کی صفات کا مظہر ہے۔ لیکن قران کریم نے انسان کو ناشکرا اور جلد باز بھی قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے الوہیت یا خدا کے افعال کا انسان کو تفویض ہوجانا لغو بات یے۔

یہ ان معنوں میں درست قرار پاسکتا ہے کہ انسان ایک نشانی ہے جس کو دیکھ کر معرفت الہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جمادات اور نباتات میں یہاں تک کہ فرشتوں میں بھی یہ صلاحیت نہیں پائی جاتی کہ وہ کمال کی طرف اس طرح سے سفر کریں جس طرح سے انسان آگے بڑھتا یے۔ یہی وجہ ہے کہ تسبیح و تقدیس کے باوجود فرشتے خلافت کے حقدار نہیں ٹھرے۔ لیکن انسان جب کمال حاصل کرتا یے تو کائنات کو اپنے تصرف میں لے آتا ہے اور اس کی تصرف کی صلاحیت اس قدر لامحدود ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ یہ انسان ہی ہے جس نے اس زمین کو آباد کیا اور اس پر پھیلی نعمتوں کو خدا کی اجازت سے اپنے استعمال میں لایا۔

ارشاد ہے کہ

وَاِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُـمْ صَالِحًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللّـٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰـهٍ غَيْـرُهٝ ۖ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيْـهَا فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُـمَّ تُوْبُـوٓا اِلَيْهِ ۚ اِنَّ رَبِّىْ قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌ

(سورہ ہود آیت 61)

“ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو (بھیجا)، اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تمھیں زمین سے پیدا کیا اور تمھیں اس میں آباد کیا، سو اس سے بخشش مانگو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ، یقیناً میرا رب قریب ہے، قبول کرنے والا ہے”

آیتوں پر غور کیجئے

یہاں هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ کو اوپر بیان کی گئی آیت اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ کے مقابل رکھیے۔ اور وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيْـهَا کو خَلِیْفَةًؕ کے مقابل رکھیے۔ ان دونوں کے تقابل سے زمین پر انسان کے خدا کا نائب ہونے کا نظریہ واضح ہوتا ہے۔

دوسرا نظریہ

وہ یہ ہے کہ انسان اپنے سے پہلے گزری مخلوقات کا نائب ہے۔ یعنی اس کرہ ارض پر ایسے جاندار رہتے تھے جو مکلف تھے۔ اور انسان ان کا ہی جانشین یعنی بعد میں آنے والا ہے۔ خلافت کے معنی ایک کے جانے بعد دوسرے کے آجانے کے ہیں۔

قران کریم کی اس آیت پر غور کیجئے۔

وَهُوَ الَّـذِىْ جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّـهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّـرَ اَوْ اَرَادَ شُكُـوْرًا

(سورہ فرقان آیت 62)

اور وہی ہے جس نے رات اور دن ایک دوسرے کے جانشین بنائے، یہ اس کے لیے ہے جو سمجھنا چاہے یا شکر کرنا چاہے۔

اس آیت میں بھی خلفتہ کا لفظ آیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قران کریم نے ہر نئی قوم کو پچھلی قوم کا جانشین کہا ہے۔ جیسا کہ سورہ یونس میں ارشاد ہے کہ

فَكَذَّبُوْهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَنْ مَّعَهٝ فِى الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُـمْ خَلَآئِفَ وَاَغْرَقْنَا الَّـذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيَاتِنَا ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِيْنَ

(سورہ یونس آیت 73)

پھر انہوں نے اسے جھٹلایا پھر ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو کشتی میں بچا لیا اور انہیں خلیفہ بنا دیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا انہیں غرق کردیا، پھر دیکھ لو کہ جو لوگ ڈرائے گئے تھے ان کا انجام کیسا ہوا۔

اس جیسی دوسری آیات میں تدبر سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان سابقین کا جانشین ہے۔

یہ دو نظریات ہیں جو اس زمن میں مشہور ہیں جن کو مجھ حقیر نے پیش کیا۔ امید ہے کہ احباب تفکر کریں گے ۔

امام رضا ایک صحیح روایت میں فرماتے ہیں۔

” زیادہ نمازیں پڑھنا اور روزے رکھنا ہی عبادت نہیں ہے بلکہ خدائی کاموں میں تفکر کرنا بھی عبادت ہے”

(اصول کافی)

دعا ہے کہ پروردگار ہمیں قران کریم میں تدبر کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

ابو جون رضا

2

2 thoughts on “زمین پر خلیفہ”

  1. Mashallah parwadigar apky ilm Mai izafa farmaye aur hmein Quran ko parhnay smjhany aur Amal krne ko tofeeq ata farmaye .
    Apki sehat o salamati k liye Allah sy dua go hon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *