عورت کا مجتہد اور لیڈر بننا

اہل تشیع میں اختلاف ہے کہ عورت مرجع تقلید بن سکتی ہے یا نہیں؟ لیکن مجتہد بننے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور وہ فتوی بھی دے سکتی ہے۔

یہ ذہنی استطاعت ہے جو کوئی بھی انسان حاصل کرسکتا ہے ۔ قران کریم نے مرد و زن دونوں کو ایمانیات اور احکامات کے سلسلے میں یکساں مخاطب کیا ہے۔ بلکہ قران کریم نے ملکہ سبا کا تذکرہ کیا اور اس کی دوراندیشی کو بیان کیا کہ کیسے اس نے اپنی قوم کو جذبات کنڑول میں رکھتے ہوئے جنگ سے بچایا اور کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے حضرت سلیمان کے بارے میں مکمل طور پر معلومات حاصل کیں۔

اسی طرح سے قران کریم نے جناب مریم کا تذکرہ کیا اور ان کے لیے اصطفی کا لفظ استعمال کیا ہے جو رسولوں کے بابت استعمال ہوا ہے یعنی کہ وہ چنیدہ لوگ تھے۔ اسی لیے علامہ طباطبائی نے جناب مریم سلام اللہ علیہاء کو مقام نبوت پر فائز سمجھا ہے۔

آیت اللہ آصف محسنی نے ایک کتاب “زن در شريعت اسلامى” (عورت اسلامی شریعت میں) لکھی ہے۔ آیت اللہ العظمی اسحاق فیاض نے بھی ایک کتاب “جایگاہ زن در نظام سیاسی اسلام” (اسلام کے سیاسی نظام میں عورت کا مقام) لکھی ہے۔

ان دو علماء کا نظریہ یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں خلقت میں مساوی اور برابر ہیں۔

یعنی یہ کہ کمال تک پہنچنے کے لئے مرد اور عورت کے درمیان فرق نہیں ہے۔ یہ مسئلہ مسلّمات میں سے ہے اور علمائے اسلام اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

ان دونوں علماء نے قاعدہ اشتراک کو اس مسئلے میں بیان کیا ہے کہ اگر ہمیں شک ہو کہ کوئی حکم مرد کے لئے ہے یا عورت کے لئے، تو قاعدہ یہ ہے کہ “عورتوں اور مردوں کے احکام مشترک ہیں”۔ کیونکہ آسمانی فرائض کے سلسلے میں عورت اور مرد کے درمیان فرق نہیں ہے۔ گوکہ یہ بھی درست ہے کہ عورتوں اور مردوں کے بعض احکام مختلف اور متفاوت ہیں۔

اس کے بعد یہ علماء جس معیار کو سامنے رکھتے ہیں وہ “اباحہ” ہے۔ یعنی یہ کہ اگر ہم کہیں شک کریں کہ کوئی فعل حرام ہے یا حرام نہيں ہے، اور اس فعل کے بارے میں کوئی حدیث و روایت نقل نہ ہوئی ہو تو قاعدہ اباحہ کی طرف رجوع کیا جائے اور اس فعل کو “مُباح” سمجھا جائے۔

آیت اللہ آصف محسنی اور آیت اللہ العظمی فیاض دونوں مجتہدین نے فتوی کی شہرت اور اجماع کی طرف توجہ نہیں دی ہے۔ اہل تشیع میں ویسے بھی اہلسنت کی طرح اجماع کا نظریہ موجود نہیں ہے۔

ان دونوں مجتہدین نے بہت سے موضوعات پر مشہور فتاویٰ کے خلاف بھی فتویٰ دیا ہے۔ اور ان سے پہلے بھی متعدد علماء نے اس مقام پر جہاں حدیث و روایت موجود نہ ہو، فتووں کی شہرت کو لائق اعتنا نہيں سمجھا ہے۔

اس کے علاوہ جو خاص بات ان دونوں عالموں کے درمیان مشترک نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ضعیف اور زندگی کے تجربے سے تضاد رکھنے والی روایات کو معیار نہ قرار دیا جائے۔

بطور مثال ان کا کہنا ہے کہ جو روایت عورت کی زعامت و قیادت کی نفی کرتی ہے وہ ضعیف ہے۔ اور زندگی کے مسلّمہ اور قطعی تجربے نے اس کے برعکس نتیجہ ثابت کیا ہے۔

آیت اللہ محسنی کا کہنا تھا کہ عورتوں کی مرجعیت، قضاوت اور زعامت و قیادت کے عدم جواز کے بارے میں مراجع کے قتاویٰ فقہی احتیاط کا ثمرہ ہیں اور اس حرمت کے لئے فقہی دلیل موجود نہیں ہے۔

آیت اللہ العظمی اسحاق فیاض بھی یہی کہتے ہیں کہ عورت قاضی بھی بن سکتی ہے اور مرجع تقلید بھی بن سکتی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ عورت کی سیاسی زعامت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ دونوں بزرگ کہتے ہیں کہ ہر وہ کام جو مرد کے لئے جائز ہے، عورت کے لئے بھی جائز ہے۔ گوکہ اس کے لئے اسلامی احکام و قوانین کے دائرے میں پاکدامنی اور حجاب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

یہ مسئلہ حصول علم اور ورزش (سپورٹس) کے بارے میں بھی ہے۔

مجھ طالب علم کی رائے میں ان دونوں بزرگان کی رائے اعتدال پسندانہ ہے۔

اللہ ان دونوں بزرگان دین پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے۔

ابو جون رضا

3

2 thoughts on “عورت کا مجتہد اور لیڈر بننا”

  1. Apka Kia khayal hai auratein mujtahid nhe hain❓
    Azadari k tmam tar rasoomaat niyazein wagaira auraton k hi ijtehad hai JIS Mai mard Hazraat b aunky muqalidein Mai Shamil hain🤣. Duniyah Mai mard ki pehli teacher lady hi hai Jo tarbiat lady KR sakhti hai wo mard ki taqat o qudrat sy bahir hai. Quran Mai jahan Allah ny insano sy khitab Kia hai aus Mai mard aur ladies dono Shamil hain albata dono ki silayait Mai difference k wajha sy dono k maidain different hai is liye bairooni qayadat ki zimadari mard per Dali gai. Is hawaly sy yeh khyna k aurat naqis ul aqal hai zulm per mabni BAAT hai ambiyah ny bhot sy umoor Mai ladies sy mashwara Kia hai.

  2. جعفر حسین کھوسہ

    بہت خوب بہترین اعتدال پسند تجزیہ ۔۔۔۔آج ہمیں ایسے معاشرے کی اشد ضرورت ہے
    قبلہ محمد حسین فضل اللہ نے بھی عورت کی حاکمیت اور قضاوت والی احادیث کو ضعیف سمجھا ہے اور وہ عورت کے سپورٹس وغیرہ میں بھی حصہ لینے کے حق میں ہیں اور قبلہ نیاز محمد ہمدانی صاحب بھی عورت کے قضاوت اور مجتہد ہونے پر اپنی کتابچہ میں ذکر کیا ہے
    سلامت رہیں اباد و شاد رہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *