تاج محل

قبرستان جائے عبرت ہیں۔ ان کو دیکھ کر انسان کو اپنی وقعت کا احساس ہوتا ہے بقول آتش

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

لوگ لاکھوں روپے خرچ کر کے قبور کی زیارت کے لیے جاتے ہیں جبکہ ان کے اپنے شہر میں قبرستان ویران پڑے ہوتے ہیں۔

یہ شاید جنت کی تلاش کے ساتھ ساتھ پکنک کا سامان بھی ہے۔

اگر قبر پر جانا ہی ہے تو میرے خیال میں تاج محل کی طرف سفر کرنا چاہیے جو عجوبہ روزگار ہے۔

چودھویں یا سولہویں بچے کی پیدائش پر ایک عورت کے انتقال پر اس کی زحمتوں کو کس طرح ایک بادشاہ نے خراج عقیدت پیش کیا ہے اس کو دیکھنے جانا چاہیے۔

اگر حالات و وقت نے اجازت دی تو آگرہ کا دورہ ضرور کروں گا ۔

دنیا کے دوسرے مذہبی مقامات پر جاکر بھی قبور کے ساتھ جب سیلفی ہی لینی یے تو کیوں نہ تاج محل کے ساتھ لی جائے ۔

کم از کم کچھ فخر کا احساس تو جنم لے گا۔

کتنے ہاتھوں نے تراشے یہ حسیں تاج محل
جھانکتے ہیں در و دیوار سے کیا کیا چہرے

رہے نام اللہ کا

ابو جون رضا

1

2 thoughts on “تاج محل”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *