آخرت کا معاملہ انسان کے لیے غیب ہے۔ وہ دو طریقوں سے ہی وہاں کے معاملات کو جان سکتا ہے۔
خود حساب کتاب کے عمل کو اپنی آنکھ سے مشاہدہ کرے یا پھر خدا کسی زریعے سے اس کو خبر پہنچائے
اللہ نے آخرت کے معاملات کو واضح طور پر بتایا ہے اور مرنے کے بعد تین قسم کی حالتوں کو قرآن میں بیان کیا ہے۔
ایک وہ لوگ ہیں جو مرتے ہی جنت میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ سابقین کا گروہ ہے جو ہر معاملے میں سبقت حاصل کرگئے اور ان کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ علامہ طباطبائی نے سیر سلوک نامی کتاب میں اس پر مفصل بحث کی ہے۔ ان کے بقول ان لوگوں پر دنیا میں ہی قیامت گزر چکی ہے۔ اس لیے یہ مرتے ہی فورا برزخی جنت میں داخل ہوجاتے ہیں۔
سورہ یس میں ایک ایسے مومن کا زکر موجود ہے۔ جس کو اس کی قوم نے اتنے پتھر مارے کہ وہ مرگیا۔ اس کا گناہ یہ تھا کہ اس نے انبیاء کی نصرت کی تھی۔
قران کریم نے اس کی گفتگو جو اس نے اپنی قوم سے کی اور پھر فورا اس کا مرنے کے بعد حال مختصراً بیان کیا ہے۔ اس کو کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجا تو اس نے افسوس کا اظہار کیا کہ کاش میری قوم بھی جان پاتی کہ میرے رب نے مرنے کے بعد میرے ساتھ کیا سلوک کیا۔ (تفصیلات کے لیے سورہ یس کے ترجمے اور تفسیر کی طرف رجوع کیا جائے)
اِنِّـىٓ اٰمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْـمَعُوْنِ (25)
بے شک میں تمہارے رب پر ایمان لایا پس میری بات سنو۔
قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّـةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِىْ يَعْلَمُوْنَ (26)
کہا گیا جنت میں داخل ہو جا، اس نے کہا اے کاش! میری قوم بھی جان لیتی۔
بِمَا غَفَرَ لِىْ رَبِّىْ وَجَعَلَنِىْ مِنَ الْمُكْـرَمِيْنَ (27)
کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں کر دیا
دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو مرتے ہی برزخی جہنم میں عزاب میں مبتلاء ہوجاتے ہیں۔ یہ فرعون اور اس کی قبیل کے لوگ ہیں جو منکرین خدا کے ساتھ ساتھ ظالم بھی تھے ان کی تعداد بھی کم ہوتی ہے
جیسے کہ سورہ غافر میں ہے:
اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَّ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ۔ (سورہ غافر ایت 45-46)
ترجمہ: “وہ لوگ صبح وشام آگ پر پیش کیے جاتے ہیں اور جس روز قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کرو”
تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو مرنے کے بعد سلا دیے جاتے ہیں اور 99 فیصد تعداد انہی لوگوں کی ہی ہوتی ہے۔ ان پر خوابیدہ حالت طاری ہوتی ہے۔ اور ان کی روح اپنے دنیاوی اعمال کے حساب سے بے چینی یا راحت اسی طرح محسوس کرتی ہے جس طرح سے خواب میں کوئی شخص کسی منظر کو دیکھ کر خوش یا ناراحت ہوتا ہے۔
جب صور پھونکا جائے گا تو یہ ایک دم سے چونک کر بیداری کی حالت میں واپس آجائیں گے۔
جیسا کہ سورہ یس میں ارشاد ہے کہ
وَنُفِـخَ فِى الصُّوْرِ فَاِذَا هُـمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّـهِـمْ يَنْسِلُوْنَ (51)
اور صور پھونکا جائے گا تو وہ فورًا اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑے چلے آئیں گے۔
قَالُوْا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاۘ هٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْـمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ (52)
کہیں گے ہائے افسوس کس نے ہمیں ہماری خوابگاہ سے اٹھایا، یہی ہے جو رحمان نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا۔
اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَةً وَّّاحِدَةً فَاِذَا هُـمْ جَـمِيْـعٌ لَّـدَيْنَا مُحْضَرُوْنَ (53)
وہ تو صرف ایک ہی زور کی آواز ہو گی پھر وہ سب ہمارے سامنے حاضر کیے جائیں گے۔
فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَّلَا تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُـمْ تَعْمَلُوْنَ (54)
پھر اس دن کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور تم اسی کا بدلہ پاؤ گے جو کیا کرتے تھے۔
یہاں خواب گاہوں کا جملہ بتا رہا ہے کہ وہ انسان کس حالت میں تھا اور اب اس کو فائنل حساب کتاب کے لیے خدا کے حضور حاضر کیا جائے گا جہاں وہ وہی پائے گا جس کی وہ کوشش کرتا رہا ہے۔
سورہ نجم میں بھی ارشاد ہے
وَ اَنۡ لَّیۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی (سورہ النجم آیت 39)
“اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے”
مرنے کے بعد انسان کا نامہ اعمال بند ہوجاتا ہے۔ مگر اس سے تین چیزیں کو استثناء حاصل ہے۔
ایک وہ علم جو وہ چھوڑ کر جائے اور لوگ اس سے مستفید ہوں۔
دوئم وہ کنواں یا درخت جو وہ لگائے یعنی عوامی فلاح کا کام جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں
سوئم وہ نیک اولاد جو والدین کے لیے دعا کرے۔
بعض اسکالرز کا کہنا یے کہ انسان اپنی اولاد کو جس بھی اچھے کام کی وصیت کرے اور ترغیب دے تو مرنےکے بعد اگر اس کی اولاد اس کام کو انجام دیتی ہے تو اس کو فائدہ حاصل ہوگا۔
لیکن بدنی عبادات کا فائدہ تب بھی حاصل نہیں ہوگا۔
یعنی ماں باپ کی قضاء نمازیں انسان پیسے دیکر کسی سے پڑھوانے لگے تو یہ ایک بیکار کام ہے۔
ایک زمانے میں نجف میں مقیم دینی طلباء جب پیسوں کی تنگی کا شکار ہوتے تھے تو اجرت پر نماز روزہ رکھتے تھے۔ کسی مرے ہوئے انسان کی پانچ آٹھ سال کی قضاء نمازیں پڑھنا اپنی ریگولر نمازوں کے ساتھ ایک مشکل کام ہے۔ اس وجہ سے طلباء سینے کے درد میں مبتلاء ہوجاتے تھے۔
کراچی ، اسلام آباد ، کوئٹہ ہر علاقے میں ایسے لوگ ہیں جو اجرت پر قضاء نمازیں پڑھتے اور روزے رکھتے ہیں۔ یہ ایک طرف غربت اور دوسری طرف امیری کا کھیل ہے۔
امیر نے ساری زندگی نماز نہیں پڑھی۔ مرنے کے بعد اولاد نے پیسے دیکر چار آدمی کھڑے کیے اور مرحوم کی قضاء نمازیں پڑھوا دیں۔
امیر یہاں بھی اگے نکل گیا اور غریب دوسروں کی نمازیں ہی پڑھتا رہ گیا۔
حج کے بارے میں البتہ منابع میں یہ ملتا ہے کہ انسان نے خود بھی کوشش کی ہو اور کسی وجہ سے حج ادا نہ کرپایا ہو اور اولاد جانتی ہے کہ وہ حج کا مشتاق تھا اور وصیت کر کے گیا ہے تو نیابت میں حج ادا ہوسکتا ہے۔
لیکن جس خضوع و خشوع اور دلی رغبت سے انسان خود سے یہ فریضہ بجا لائے گا وہ اس کی نیابت میں کسی اور انسان سے کہاں ہوپائے گا؟ اسی لیے جوانی کی عبادات کو بڑھاپے کی عبادات سے افضل قرار دیا گیا ہے۔
دعا ہے کہ پروردگار ہمیں اپنے واجبات کو دنیا میں ہی ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے اور مجھے اور میری اولاد کو توفیق دے کہ وہ علم پھیلائیں اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لیں۔
“قُلْ اِنَّ صَلَاتِىْ وَنُسُكِىْ وَ مَحْيَاىَ وَمَمَاتِىْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ لَا شَرِيْكَ لَهٗۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَاۡ اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ”
ختم شد
ابو جون رضا