انڈیا کے ایک مشہور عالم نے وفات سے کچھ وقت پہلے وصیت فرمائی تھی کہ
“احباب سے اگر بطبیب خاطر ممکن ہو تو ہفتہ فاتحہ میں دو تین بار ان اشیاء میں سے بھی کچھ بھیج دیا کریں
- دودھ کا برف خانہ اگر بھینس کا دودھ ہو
- مرغ کی بریانی
- مرغ پلاؤ خواہ بکری کا ہو
- شامی کباب
- پراٹھے اور بالائی
- فرنی
- ارد کی پھریری دال مع ادرک اور لوازم
- گوشت بھری کچوریاں
- سیب کا پانی
- انار کا پانی
- سوڈے کی بوتل
(وصایا شریف صفحہ 9)
ایک نامور عالم لکھتے ہیں۔
“ایک بی بی نے مرنے کے بعد خواب میں اپنے لڑکے سے کہا کہ میرا کفن ایسا خراب ہے کہ مجھے اپنے ساتھیوں میں جاتے شرم آتی ہے۔ پرسوں فلاں شخص آنے والا ہے۔ اس کے کفن میں ایک اچھے کپڑے کا کفن رکھ دینا۔ صاحبزادے نے صبح بیدار ہوتے ہی ان صاحب کا پتا کیا۔ معلوم ہوا کہ بھلے چنگے ہیں۔ تیسرے دن خبر آئی کہ ان صاحب کا انتقال ہوگیا۔ صاحبزادے نے فورا ایک بہترین سا کفن منگوا کر مردے کے کفن کے ساتھ رکھ دیا اور ان سے کہہ دیا کہ
“میری اماں کو پہنچا دینا”.
(ملفوظات مولانا احمد رضا حصہ اول صفحہ 106)
اس طرح کی بے شمار روایات اور رسومات ہمارے ہاں مختلف طبقات میں رائج ہیں اور ایسی جڑ پکڑ چکی ہیں کہ اگر کوئی ان کو چھوڑنے کا اعلان کرے تو ایسا ہے جیسے مرتد ہوگیا۔
جبکہ نبی کریم سے ہمیں ایسے کسی طرز عمل کی روایت نہیں ملتی۔ اس کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ برادران اہلسنت حضرت ابو طالب کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا سے کلمہ پڑھے بغیر رخصت ہوئے۔ جبکہ شیعہ ان کو مومن قرار دیتے ہیں۔ اگر ہر جمعرات یا سوئم چالیسویں پر فاتحہ خوانی اس قدر ضروری عمل ہوتا تو رسول اکرم یا مولا علی کی زندگی سے ایسی روایات مل جاتیں جن سے ہمیں پتا چلتا کہ یہ ہستیاں اپنے والد ، چچا ، بیٹی یا بیوی کی فاتحہ خوانی کرواتے تھے ۔ سارا جھگڑا ہی ختم ہوجاتا۔
اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے نبی کریم کی زندگی کو اپنے لیے اسوہ قرار نہیں دیا ہے۔ میں نے خود بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ فاتحہ سوئم کے لاتعداد کھانے پکائے جاتے ہیں اور جوتے، برتن، زیور سامنے رکھ کر ان پر فاتحہ دی جاتی ہے۔ جن کے گھر میں میت ہوتی ہے وہ مزید زیر بار ہوتے ہیں جبکہ میت کے گھر کھانا پکوا کر بھیجنے کا حکم ہے۔
شیعہ سنی دونوں مکاتب فکر کی روایات میں ملتا ہے کہ جناب جعفر طیار کی شہادت پر رسول اکرم نے لوگوں سے کہا کہ
“جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو۔ ان پر ایسی افتاد ہے کہ وہ اسی میں مشغول ہیں”
(مشکواتہ عن ترمزی صفحہ 151)
اسی سے ملتی جلتی روایت من لایحضر الفقیہ جلد اول باب میت میں ملتی ہے کہ امام جعفر صادق ارشاد فرماتے ہیں کہ
” اہل مصیبت کے یہاں کھانا، کھانا اہل جاہلیت کا دستور ہے اور سنت یہ ہے کہ انکے یہاں طعام بھیجا جائے جیسا کہ رسول اکرم کے پاس جب جناب جعفر بن ابی طالب کی شہادت کی خبر آئی تو آپ نے حکم دیا کہ آل جعفر کے یہاں طعام بھیجا جائے”
آیت اللہ محمد حسین نجفی صاحب بجا طور پر کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ خوانی کو بدعت قرار دیتے ہیں کہ رسول اکرم اور ائمہ اہلبیت کی زندگی سے اس طرز عمل کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
(جاری۔۔)
ابو جون رضا
جی بالکل قبلہ محمد حسین نجفی نے اپنی کتاب اصلاح الرسوم الظاہرہ فی کلام العترت الطاہرہ یعنی اصلی اسلام اور رسمی اسلام میں یہی بات کی ہے اور اسے جعلی رسم قرار دیا ہے جزاک اللہ احسن الجزاء سلامت رہیں برادرم ❤️